کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 336
کیا ہے۔‘‘[1]
الصفار (۲۹۰ ہجر ی):
ابو جعفر محمد بن الحسن الصفار نے اپنی مشہور کتاب ’’ بصائر الدرجات ‘‘ میں ابو جعفر الصادق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں :
’’ لوگوں میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ تمام قرآن ایسے جمع کر لیا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا،مگر وہ جھوٹا کذاب ہے۔ اس کو نہ ہی جمع کیا ہے اور نہ ہی ایسے محفوظ کیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا؛ سوائے علی بن ابو طالب کے اور ان کے بعد ائمہ کے۔‘‘ (انہوں نے جمع کیا تھا) [2]
او رانہی سے دوسری روایت میں نقل کیا گیا ہے :
’’ اوصیاء کے علاوہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے قرآن سارے کا سارا جمع کرلیا تھا، اس کا ظاہر بھی اور باطن بھی۔‘‘[3]
علی بن ابراہیم قمی (م ۳۰۷ ھ):
ان کے شیخ المشائخ علی بن ابراہیم قمی وہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں ذکر کرتے ہیں :
’’ قرآن میں ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی؛ اور اس میں محکم بھی ہے اورمتشابہ بھی ؛ اس میں عام بھی اور خاص بھی ؛ اس میں تقدیم بھی ہے اور تاخیر بھی ؛ مقطّع بھی ہے اور معطوف بھی ؛ اس میں بعض حروف کی جگہ بعض ہیں،اوربعض اس کے خلاف ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ ‘‘[4]
پھر اس نے انتہائی ظالمانہ انداز میں بہتان گھڑتے ہوئے جوکچھ کہا ہے؛ قرآن کریم سے اس کی مثالیں ذکر کی ہیں۔جن میں وہ تغییرو تبدیل ؛ تقدیم و تاخیر کرنے لگا ؛ یہ سارا کچھ وہ اپنے یہودی اساتذہ ومشائخ کی نقالی کرتے ہوئے کررہا ہے۔ذیل میں اس کی مثالیں دی جارہی ہیں :
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿یَا مَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ﴾ (آل عمران: ۴۳)
’’مریم اپنے رب کی فرما نبرداری کرنا او ر سجدہ کرنا اور رکوع کرنا۔‘‘
یہ اصل میں ایسے تھا : ﴿ارْکَعِیْ وَاسْجُدِیْ ﴾ ’’رکوع کرنا اور سجدہ کرنا۔‘‘
ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان :