کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 333
شریعت سمجھا رہے تھے اور ان کے سامنے تفسیر کررہے تھے۔
محرف تورات کے بارے میں ان کے علماء کا کلام اور آراء نقل کرنے کے بعد، اور خصوصاً اس کے ساتھ جو سفر عزرا ور نحیما سے نقل کیا گیا ہے، اس بحث کے تین نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں :
پہلا نتیجہ:… تحریف کے بعد اس تورات کا کاتب عزرا الوراق ہے، جس نے بابلی قید سے واپسی کے بعد یہ تورات لکھی ہے۔
دوسرا نتیجہ :… عزرا کاتب کے پاس یہ تورات لکھتے ہوئے کو ئی دوسرا نسخہ موجود نہیں تھا جس سے وہ نقل کررہا ہو، بلکہ اس نے اپنی یادداشت اور حفظ کے بل بوتے پر لکھی ہے؛ اور بعض ان فصول پر اعتماد کیا ہے جنہیں کاہنوں نے محفوظ رکھا تھا۔
تیسرا نتیجہ : عزرا نے بنی اسرائیل کے لیے تورات کے لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کی شرح اور تفسیر بھی کی ہے۔ اور اس معاملہ میں بہت سارے کاہنوں نے اس کی مدد کی تھی۔
رہے عہد عتیق کے باقی اسفار ؛ تو علماء مسلمین میں سے بہت کم لوگوں نے اس کتابوں کے مطالعہ؛ اس کتاب اور اس کے لکھنے جانے کی تاریخ سے متعلق تحقیق کا اہتمام کیا ہے۔ اس لیے کہ ان کے اکثر اہتمام تورات کے مطالعہ پر ہوتا تھا۔ اس اعتبار سے کہ تورات ہی واحد کتاب ہے جس کا ذکر قرآن میں واردہوا ہے۔
جب کہ یہود و نصاریٰ میں سے اہل کتاب کے علماء ؛ ان کے بارے میں علامہ رحمت اللہ ہندی ( رحمہ اللہ ) نے تذکرہ کیا ہے کہ ان اسفار میں سے ہر ایک سفر کے کاتب کے متعلق ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔‘‘[1]
جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان اسفار کو ان لوگوں کی طرف منسوب کرنا، جن کی طرف منسوب کررہے ہیں اور جن کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر تھے۔ (یہ نسبت) بالکل یقینی نہیں ہے، بلکہ وہ محض اٹکل پچو گمان کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اور یہ بد گمانیاں حق بات سے کچھ بھی مستغنی نہیں کرسکتیں۔
دوسری بحث : …رافضی عقیدۂ تحریف قرآن
رافضی اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں تحریف اور تبدیلی کردی گئی ہے۔ اور یہ کہ اس میں بہت سی آیات زیادہ کی گئی ہیں، اور بہت سی آیات کم کی گئی ہیں، اور جو کچھ اس میں کم کیا گیا ہے وہ موجودہ قرآن سے دوگنا زیادہ ہے۔
نیز اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سرفہرست جناب ِ حضرت ابو بکر و حضرت عمر اور حضرت
[1] نقد التوراۃ ص ۸۰۔
[2] فر نحمیا اصحاح ۸؛ فقرہ (۱-۹)۔