کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 330
جماعت کا شیرازہ بکھر گیا ہے، اور ان کی کتاب اٹھا لی گئی ہے۔ تو اس نے اپنی یاد داشتوں سے وہ فصول جمع کیں جو کاہن زبانی یاد کیا کرتے تھے۔ جس سے انہوں نے اس تورات کو مرتب کیا جو اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس وجہ سے یہودی اس عزرا کی تعظیم میں بہت ہی مبالغہ کرنے لگے۔ یہاں تک کہنے لگے کہ :اس کی قبر سے (اب تک) نور اٹھ رہا ہے، جو کہ بطائح(ایک بستی کا نام) عراق میں ہے۔ اس لیے کہ اس نے ان کے لیے کتاب مرتب کی جس سے ان کے دین کی حفاظت ممکن ہوئی۔ اب یہ تورات جو ان کے ہاتھوں میں ہے حقیقت میں یہ عزرا کی تورات ہے، نہ کہ اللہ کی۔‘‘[1]
اسی طرح یہودیوں میں سے علماء سامرہ نے کھل کر کہا ہے کہ : ’’ بے شک عزرا ہی نے یہ تورات لکھی ہے، اور اس نے اس کتاب اللہ میں تحریف اوراسے عمدًا و قصدًا اپنے ارادہ سے تبدیل کر ڈالا۔ تورات ضائع نہیں ہوئی تھی کہ اسے لکھ دیا، بلکہ اس نے حق کو باطل سے تبدیل کردیا۔‘‘
ابو الحسن السامری اپنی تاریخ میں کہتا ہے :
’’ جب فارسیوں نے یہودیوں کو اپنے وطن کی طرف واپس جانے کی اجازت دی۔ تو ان سے کہا کہ وہ ایک آدمی کی قیادت میں متحد ہوجائیں۔ اور ان کا دار الحکومت بھی ایک ہونا چاہیے تا کہ ان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے۔ مملکت بنی اسرائیل (سامراء ) والوں نے اسرار کیا کہ حکومت ان میں ہونی چاہیے ؛ اور نابلس میں واقع ان کا ہیکل قبلہ ہونا چاہیے۔ اور مملکت یہوذا (یرو شلم ) والوں نے اصرار کیا کہ حکومت ان میں ہونی چاہیے۔ اور یرو شلم میں ان کا ہیکل قبلہ ہونا چاہیے، اس وجہ سے ان کی آپس میں دشمنی بہت بڑھ گئی۔ یروشلم والوں نے اپنی مصلحت کے لیے تورات کی نصوص میں تغییر و تبدیلی کردی۔ اور عزرا اور زرو بیل[2]نے ان کے لیے عبرانی خط سے ہٹ کر ایک اور رسم الخط ایجاد کیا جس کے لیے ستائیس حروف مقرر کیے۔ اور پھر شریعت مقدس کی طرف متوجہ ہوا ور اسے اپنے ایجاد کردہ خط میں نقل کیا۔ اور شریعت مقدسہ کی بہت ساری سورتوں کو حذف کردیا۔‘‘[3]
عبری زبان کے علماء سامری کی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں :
[1] قاموس الکتاب المقدس میں ہے : ’’ عزرا بن سرایا ہارون کی نسل میں سے کاہن اور کاتب تھا ؛ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا بڑا ماہر تھا۔ یہ بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہیں قیدی بنا کر بابل لے جایا گیا۔ اور ایرانی بادشاہ نے انہیں بیت الرب ( بیت المقدس ) کی وجہ سے واپس یرو شلم جانے کی اجازت دی ؛ اورانہیں بہت سارے سونے اور چاندی کے تحفے تحائف بھی دیے۔ دیکھو : ص: ۴۹۰۔
[2] الفصل : ۱/ ۲۹۸۔
[3] شفاء الغلیل في بیان ما وقع في التوراۃ و الإنجیل من التبدیل ص: ۳۱۔