کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 33
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’[سامری] بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ اور یوشع علیہما السلام کے بعد ہر نبوت کو باطل سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ حضرت شمعون و داؤد، سلیمان، وإشیعا اور یسع، اور الیاس عاموص ؛ حبقوق ؛ زکریا،إرمیا علیہم السلام اور دوسرے انبیاء کا انکار کرتے ہیں۔ اور بعثت پر مطلق ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ شام کے علاقوں میں رہ رہے ہیں اور وہاں سے نکلنے کو حلال نہیں سمجھتے۔[1]
۲۔ صدوقی :
یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کے کاہن ِ اعظم ’’صادوق‘‘ کی طرف نسبت کی وجہ سے صدوقی کہلاتے ہیں۔ یا انہیں اس نام کے کسی اور کاہن کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کا وجود تین سو برس قبل مسیح تھا۔[2]
سب یہودیوں میں سے صرف یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ اللہ ان کی ان باتوں سے بہت ہی بلند ہے۔[3]
یہ لوگ آخرت کے دن پر اور دوبارہ اٹھنے پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ جنت و جہنم اور حساب کا انکار کرتے ہیں اور ان کا اعتقاد یہ ہے کہ بدکار کی سزا اور نیک و کار کو بھلائی اس دنیا کی زندگی میں ہی مل جاتی ہے۔[4]
صدوقی فرقہ کے لوگ زبانی تعلیمات ( تلمود) کا انکار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ تورات کو بھی نہیں مانتے۔[5]اور اس بات کا بھی اعتقاد نہیں رکھتے کہ یہ مطلقاً مقدس ہے۔ ایسے ہی ملائکہ اور شیاطین کے وجود کا بھی انکار کرتے ہیں۔ قضاء و قدر پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ اور آزادیٔ اختیار پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ افعال انسان کی تخلیق ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کی۔ ایسے ہی وہ مسیح منتظر کا بھی انکار کرتے ہیں اور ان کا انتظار نہیں کرتے۔
صدوقی چڑھائی اورانقلاب برپا،کرنے والی تحریکوں میں شرکت کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اورنہ ہی ایسی امیدوں کی طرف رجحان رکھتے ہیں جن میں تشدد اور سختی ہو۔وہ اس وقت تک ہر حال میں موجود قوانین کے احترام کا میلان رکھتے ہیں ؛جن میں یہودیوں کے احترام کا پہلو کسی بھی طرح موجود ہو۔ سو اپنی یہودیت کے اعتراف اور خاص امتیازات کے ساتھ یہ حاکم قوتوں پر اکتفا کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امر واقعی کو قبول کر لینا ہی حکمت ہے۔[6]
۳۔ فریسیون یا ربانی:
لغت میں فریسیون عبرانی کلمے ’’ فروشیم‘‘[7] سے مأخوذ ہے۔ اس کے معنی ہیں :
[1] الفصل: ۱؍۱۷۷
[2] د؍ احمد شیلی الیہودیۃ ، ص: ۲۲۱
[3] ابن حزم: الفصل: ۱؍۱۷۸
[4] انظر : د/ عبد الواحد وافی: الأسفار المقدسۃ ص ۶۴۔والدکتور أحمد شلبی : الیہودیۃ ص ۲۲۲۔
[5] یہاں پر تورات سے مقصود عہد قدیم کے اسفار کا مجموعہ ہے۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام کے پانچ اسفار پر تمام یہودی امتوں کا اجماع ہے۔
[6] انظر: الدکتور أحمد شلبی : الیہودیۃ ص ۲۲۲۔
[7] ’’أضواء علی الیہودیۃ من خلال مصادرہا۔‘‘… ’’یہودیت پر ایک نظر ان کے مصادر کی روشنی میں۔‘‘ ڈاکٹر محمد احمد دیاب عبد الحافظ ص ۱۶۵۔