کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 329
ہوتا ہے کہ: اس محرف تورات کا کاتب کون انسان ہے ؟ جب ہم اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ان کے علماء اور محققین کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بھی اس بات کی تاکید و تائید کرتے ہیں کہ تحریف کے بعد اس تورات کا کاتب ’’ عزرا الوراق‘‘ ہے۔‘‘[1] نیز یہ بھی کہ اس کے تورات لکھنے کا واقعہ یروشلم پر (بابلی بادشاہ) بخت نصر کے حملہ اور ہیکل کے مٹانے؛ اور بڑی تعداد میں یہودیوں کو قتل کرنے کے بعد کا ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بے شک عزرا الوراق وہی شخص ہے جس نے یہودیوں کو تورات اپنی یاد داشت سے املاء کروائی تھی۔ اور عزرا کا تورات کا یہ املاء کروانا بیت المقدس کی تباہی کے ستر سال سے زیادہ عرصہ بعد کا ہے۔‘‘[2] جب کہ ابو المعالی الجوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ بے شک وہ تورات جو کہ اب یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے، اور جسے عزراء الوراق نے لکھا ہے (یہ اس وقت کے بعد کا واقعہ ہے ) جب بخت نصر کے ساتھ ان کا معرکہ پیش آیا، اور اس نے ان کے گروہوں اور جماعتوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا، صرف کچھ ان لوگوں کو زندہ رہنے دیا جن کی کسی بھی لحاظ سے وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا۔اور اس نے ان کے اموال کو اپنے لشکر کے لیے غنیمت بنایا اور اس کے ہاتھوں ان کی کتابوں کے ضائع ہوجانے کے بعد ؛ اس لیے کہ وہ ان کی شریعت کا پابند نہیں تھا۔ اوروہ ان کے اعمال کے فاسد ہونے کا اعتقادر کھتا تھا۔ اور اس (بخت نصر) کے ان کے گھر (بیت المقدس) میں بت نصب کرنے کے بعد۔ [یعنی تورات لکھنے کا وقت بیان کیا جارہا ہے۔مترجم] اور اس (تورات)کانام لینے پر پابندی لگانے کے بعد ؛ یہ حال کافی عرصہ رہا، یہاں تک کہ جس کسی کے پاس کچھ اوراق باقی بچ گئے تھے، وہ انہیں چھپا کر رکھتا اور انتہائی راز داری میں حیلوں بہانوں سے پڑھتا۔ اور یہ موجودہ نسخہ اسے عزرا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے ۵۴۵ (پانچ سو پینتالیس) سال پہلے لکھا ہے۔‘‘[3] اس کی تائید امام سموال بن یحییٰ مغربی کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں : ’’ جب عزرا نے دیکھا کہ لوگوں نے ان کا ہیکل جلادیا ہے۔ اور ان کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔ اور ان کی
[1] اظہار الحق ص ۲۷۳۔ [2] نولڈکھ کا پورا نام ’’ ٹیو ڈور نولڈکھ ‘‘ہے۔ جرمنی کے بہت بڑے مستشرقین میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ جرمنی کے شہر ہاربورج میں ۱۲۵۱ ہجری(۱۸۳۶ء) میں پیدا ہوا۔ اور مختلف یونیوورسٹیوں کوٹگن ،وفینہ ؛ ولیڈن ، اوربرلن میں تعلیم حاصل کی۔ پھر سامی زبانوں اور تاریخ اسلام پر توجہ دینی شروع کی۔ تمام ایشیائی زبان پر اچھا عبور حاصل تھا ؛ جیسے کہ : عربی، آرامی ، عبریانی ، صابی؛ حبشی ؛ اور دوسری زبانیں۔ اس نے ان زبانوں میں کچھ درستگیاں بھی کی ہیں۔ اسے مغربی زبانوں جیسے کہ : انگریزی ؛ فرانسیسی ، لاتینی ؛ اٹلی ، اور جرمنی پر عبور حاصل تھا۔ اس کے متعلق بابا انسٹاسی الکرملی کہتاہے : ’’ معاصرین اہل علم میں کسی کو ایسا نہیں پاتے جو اس کے مقام و تحقیق کو پہنچ سکے۔ ۱۳۴۹ ہجری (۱۹۳۰ ء )میں انتقال ہوا۔ الأعلام : للزرکلی ۲/ ۹۶۔ اللغات السامیۃ بواسطۃ د/ محمد احمد دیاب أضواء علی الیہودیۃ ص :۱۴۵۔ [3] دائرۃ المعارف الفرنسیۃ بواسطۃ د/ محمد احمد دیاب أضواء علی الیہودیۃ ص :۱۴۵۔ [4] قصۃ الحضارۃ (۲/ ۳۶۷)۔