کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 328
اور ’’نولڈ کھ ‘‘[1]کہتا ہے: ’’تورات موسیٰ علیہ السلام کے نو سو سال بعد جمع کی گئی ہے۔ اور اسے جمع کرنے اور لکھنے میں بھی ایک بڑا وقت درکار رہا۔ اور اس میں کمی بیشی کے حیلے بھی پیش آتے رہے۔ اور یہ بات بہت ہی مشکل ہے کہ ہم تورات میں کوئی وہ کلمہ پوراپالیں جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ اس لیے کہ تورات نہ تو ان کے عہد میں لکھی گئی اور نہ ہی ان لوگوں کے وقت جو ان کے بعد آئے۔ ‘‘[2]
فرانسیسی دائرۂ معارف میں ’’تورات ‘‘ عنوان کے تحت یوں آیا ہے :
’’ بے شک عصری علم، اور خاص کر جرمنی کی تنقید ؛انہوں نے اپنے ریسرچ میں پرانی کتابوں ؛ علم اللغات اور تاریخ میں تلاش کرنے کے بعد ثابت کیا ہے کہ: ’’بے شک تورات موسیٰ علیہ السلام نے نہیں لکھی۔ بے شک تورات ایسے درویشوں نے لکھی ہے، جنہوں نے اپنانام اس پر نہیں لکھا۔ انہوں نے اسے مختلف زمانوں میں لکھا ہے اور اس کے لکھنے میں سنی سنائی روایات پر اعتماد کیا ہے، جو انہوں نے بابلی قید سے پہلے سن رکھی تھیں۔‘‘[3]
اور ول ڈیورانٹ کہتا ہے: ’’علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ تورات کے اسفار میں سب سے پہلی تالیف وہ دو متشابہ اورجداجدا قصے ہیں جو سفر تکوین میں ہیں۔ ان میں سے ایک قصہ خالق کے متعلق ہے جس کا نام ’’یہوا‘‘ ہے۔ اسی لمحے دوسرا قصہ اس کے متعلق ہی بیان کرتا ہے، مگر اس میں نام ’’ الوہیم ‘‘ ہے۔ اورعلماء اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قصے جو کہ ’’ یہوا‘‘ کے ساتھ خاص ہیں ؛ وہ یہوذا کے بارے میں لکھے گئے ہیں۔ اور وہ قصے جو الوہیم کے ساتھ خاص ہیں، وہ ’’افرائم ‘‘(سامرۃ ) کی بابت لکھے گئے ہیں۔ اور ان دونوں قصوں کو سامرا کے سقوط کے بعد آپس میں ملا دیاگیا۔‘‘[4]
محرف تورات کا کاتب
جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اس محرف تورات کے کاتب جناب حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں تو پھر سوال پیدا
[1] افحام الیہود ص: ۱۳۵-۱۳۷۔
[2] ہدایۃ الحیاری في أجوبۃ الیہود والنصاریٰ ص ۱۰۶۔