کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 327
ثالثاً: تحریف ِ تورات اورعلماء یہود کا اعتراف :
یہودیوں کے درویش اور علماء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تورات میں تحریف واقع ہونے کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔یہ عقیدہ و کلام قدیم اور جدید ہر دور کے یہودی علماء سے نقل کیا گیا ہے۔
سموال بن یحییٰ (جو کہ یہودیوں کابہت بڑا عالم اور درویش تھا) اسلام قبول کرنے کے بعد کہتا ہے: ’’یہود کے علماء اور درویشوں میں سے ایک بھی اس بات پر یقین بالکل نہیں رکھتا کہ جو تورات ان کے ہاتھوں میں ہے، یہی (تورات ) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ اس لیے کہحضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کو بنی اسرائیل سے محفوظ کر لیا تھا؛ اور اُ سے لوگوں میں پھیلایا نہیں تھابلکہ اسے اپنے خاندان میں اولاد ِ لیوی کے سپرد کردیا تھا۔ اورحضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات سے بنی اسرائیل کے لیے صرف نصف سورت کو نکالاتھاجسے ’’ ھاازینو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور یہ ائمہ ہارونی جو تورات کی معرفت رکھتے اور اسے حفظ کرتے تھے؛بخت نصر نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو ان میں سے اکثر کو یک دم ہی قتل کردیا تھا۔ اور تورات کو حفظ کرنا نہ ہی فرض تھا اور نہ ہی سنت۔ بلکہ ہارونیوں میں سے ہر ایک تورات کی ایک فصل زبانی یاد کیا کرتا تھا۔‘‘[1]
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہودی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ستر کاہنوں نے اتفاق کیا ہے کہ تورات تیرہ مقامات پر تحریف شدہ ہے۔ یہ مسیح کے بعد قیاصرہ کے دورکا واقعہ ہے؛ جن کے ماتحت یہ لوگ تھے، یعنی جس وقت ان کا ملک ختم ہوگیا، اور کوئی بادشاہ ایسا نہ رہا جس سے ڈرتے، یا جو ان کو روکتا۔ اور جو کوئی کتاب اللہ کے کسی ایک مقام پر تحریف کرنے پر راضی ہو اس سے اس بات کی امید نہیں رکی جا سکتی کہ وہ باقی مواقع پر تحریف نہ کرے۔‘‘
علامہ رحمت اللہ ہندی رحمہ اللہ نے ان کے ایک عالم سے نقل کیا ہے جو کہ حکومت عثمانیہ کے دنوں میں مسلمان ہوا تھا؛ اور اس نے اپنا نام ’’ عبد اللہ ‘‘ رکھا۔ اس نے یہودیوں کے رد پر ایک چھوٹا سا رسالہ لکھا؛ جس کانام رکھا: ’’الرسالۃ الہادیۃ‘‘ (وہ فرماتے ہیں ) :
’’ جان لیجیے کہ یہود کے ہاں سب سے مشہور تفسیر، جو کہ ان کے ہاں ’’تلمود ‘‘ کے نام سے مشہور ہے؛ میں یہ لکھا ہوا پایاجاتاہے کہ : ’’ بے شک تلمائی بادشاہ کے زمانہ میں جو کہ بخت نصر کے بعد آیا تھا،تلمائی نے یہودی علماء اور درویشوں سے تورات پیش کرنے کا مطالبہ کیا مگروہ اس کو ظاہر کرنے سے ڈر گئے، اس لیے کہ وہ تورات کے بعض احکام کا منکر تھا۔ تو یہودیوں کے ستر عالم جمع ہوئے۔ اور انہوں نے جیسے چاہا بادشاہ کے خوف سے ان کلمات کو بدل ڈالا، جن کا بادشاہ انکار کرتا تھا۔ جب وہ اس تغییر کا اعتراف کرتے ہیں، تو پھر کسی ایک آیت پر کیسے ایمان رکھا جاسکتا ہے، یا اعتماد کیا جاسکتا ہے۔‘‘[2]
[1] إظہار الحق ص ۱۳۸۔
[2] اصحاح ۱۷؛ فقرہ۷۔
[3] قاموس الکتاب المقدس ص ۷۲۹۔
[4] اصحاح ۳۶ : فقرہ ۵-۶۔
[5] إظہار الحق ص ۱۴۰۔