کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 325
باپ سے دو سال بڑا تھا۔‘‘[1] چوتھی وجہ : …عہد ِ عتیق میں اغلاط کا بیان: پہلی مثال:… سفر تکوین کی عبارت میں یوں آیا ہے : ’’اور رب الٰہ نے کہا : ’’وہ ایسا انسان(آدم علیہ السلام ) ہے جو ہم میں سے ہی ایک آدمی کی طرح ہوگیا ہے، خیر اور شر کا جاننے والا۔ اور اب شاید وہ ہاتھ بڑھائے ’’شجر حیات‘‘ سے کچھ پھل لے اور اسے کھا بھی لے، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہے۔ پھر رب نے اسے ہمیشہ کی جنت سے نکالا تاکہ وہ زمین میں کام کرے جس سے اسے بنایا گیا ہے۔‘‘[2] یہ ایک فحش غلطی ہے جس کے غلط ہونے میں معمولی درجہ کا عاقل بھی شک نہیں کرسکتا اور یہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ و افتراء ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ اس نص پرتبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ان کا اللہ تعالیٰ سے یہ حکایت بیان کرنا کہ اس نے فرمایاہے :’’ یہ آدم ہم میں سے ہی ایک ہوگیا۔‘‘ یہ زمانے کی سب سے بڑی مصیبت ہے۔اور اس کا ضروری موجب یہ ہے کہ ’’ معبود ایک سے زیاہ ہیں۔ ‘‘ اس خبیث اور جھوٹی حکایت کی وجہ سے یہودیوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا کہ جس نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا وہ بھی مخلوق ہی تھا جسے آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا کیا گیا تھا۔ اور اس نے بھی اس درخت سے کھایا جس سے آدم علیہ السلام نے کھایا تھا تو اس کو خیر اور شر کی معرفت ہوگئی۔ پھر اس نے ’’ شجر حیات‘‘ سے کھایا تو جملہ معبودوں میں سے ایک معبود بن گیا۔ ہم اس احمقانہ کفر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ [3] دوسری مثال : اخبار ایام دوم میں آیا ہے : ’’ اور اس کی بنیاد سلیمان نے اللہ کا گھربنانے کے لیے رکھی ہے، جس کی لمبائی قیاساً ساٹھ ہاتھ ہے اور چوڑائی بیس ہاتھ ہے۔ اور وہ صحن( GALLERY ) جو لمبائی کی سیدھ میں ہے چوڑائی میں ہے ؛ اس کی چوڑائی بیس ہاتھ ہے، اور لمبائی ایک سو بیس ہاتھ ہے۔‘‘[4] علامہ رحمت اللہ ہندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اس کا کہنا : ایک سو بیس ہاتھ، محض غلط ہے، اس لیے کہ اس گھر کی بلندی تیس ہاتھ تھی، جیسا کہ سفر ملوک اول باب ششم کی دوسری آیت میں ہے۔‘‘[5]
[1] إظہار الحق ص ۲۱۶-۲۱۷۔ [2] الإصحاح الرابع والعشرون فقرۃ(۹)۔ [3] الإصحاح الحادي والعشرون فقرۃ(۵)۔ [4] الإصحاح الثامن فقرۃ(۲۶)۔ [5] الإصحاح الثاني والعشرون فقرۃ(۲)۔