کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 324
اور ایسے ہی وہ یہ بات بھی کہتے ہیں :
’’بے شک نسب نامہ کے وہ اوراق جن سے عزراء رحمۃ اللہ علیہم نے نقل کیا ہے ؛ ان میں سے اکثر ناقص تھے۔ اور یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس جیسے معاملات کو چھوڑ دیں۔‘‘[1]
اختلاف دوم :
سفر صموئیل ثانی ( اخبار ایام اول) میں بنی اسرائیل اور یہوذا کے بیٹوں میں اختلاف ہے۔ سفر صموئیل ثانی میں وارد ہونے والی نص یہ ہے :
’’یوآب نے جملہ قوم کو بادشاہ کے حوالے کردیا، اسرائیل کے آٹھ لاکھ جنگی لڑاکے تلواریں لٹکائے ہوئے تھے اور یہوذ ا کے پانچ لاکھ لوگ تھے۔‘‘[2]
جب کہ اخبار ایام اول میں ہے:
’’یوآب نے اپنی جملہ قوم داؤد کو پیش کی۔ تمام قوم گیارہ لاکھ لوگ تھے جو کہ تلوار بردار تھے۔ اور یہوذا کے چار لاکھ ستر ہزار تلوار بردار تھے۔ ‘‘[3]
ان دونوں میں بنی اسرائیل کے جنگجوؤں کے درمیان تین لاکھ کا فرق ہے۔ اور یہوذ ا کے لڑاکوں میں تیس ہزار کا فرق ہے۔‘‘
اختلاف سوم :
سفر ملوک دوم اور اخبار ایام دوم میں ’’اخزیا‘‘ کی عمر کے بارے میں جب وہ بادشاہ بنے ؛ اختلاف پایا جاتا ہے۔ سفر ثانی (بادشاہوں کا دوسرا سفر) میں ہے :
’’اخزیا‘‘ جب بادشاہ بنا اس کی عمر بائیس سال تھی اور یروشلم میں صرف ایک سال حکومت کی۔‘‘[4]
نیز اخبار ایام دوم میں ہے : ’’ اخزیا جب بادشاہ بنا تو اس کی عمر بیالیس سال تھی ؛ اس نے ایک سال تک یروشلم میں حکومت کی۔‘‘[5]
علامہ رحمت اللہ ہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اور دوسرا قول یقیناً غلط ہے جیسا کہ ان کے مفسرین نے اقرار کیا ہے۔ اور غلط کیسے نہیں ہوسکتا کہ اس کے باپ ’’یہو رام۔‘‘ کی عمر موت کے وقت چالیس سال تھی اور وہ اپنے باپ کے فورًا بعد تخت ِ حکومت پر متمکن ہوا، جیسا کہ سابقہ باب سے واضح ہوتا ہے۔اگر یہ غلط نہ ہوتو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ اپنے
[1] رحمت اللّٰہ ہندی: إظاہر الحق ص ۴۰۷-۴۰۷؛ د / أحمد حجازی : نقد التوراۃ ص ۱۳۴-۱۳۷۔
[2] فقرات (۶؛۷)۔
[3] فقرات (۱؛۵)۔
[4] الإصحاح السادس والأربعون فقرۃ(۲۱)۔
[5] إظہار الحق ص ۲۱۶۔