کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 32
اصل ایجاد:
یہ آشوریوں سے کے ہم نوا ہیں بلکہ اکثر سامری آشوری قبائل سے تعلق رکھتے ہے۔[1] انہیں بابل کے بادشاہ نے یہاں بھیجا تھا کہ وہ فلسطین میں ان یہودیوں کی جگہ سکونت اختیار کریں جنہیں قید کرکے بابل لے جایا گیا تھا۔ [2]
باہر سے آنے والی آشوری یہاں پر قید سے بچ جانے والے یہود سے گھل مل گئے اور انہوں نے یہودی مذہب اختیار کرلیا۔ اسی لیے سامری فرقہ کی اکثریت بنی اسرائیل کے علاوہ دوسرے قبائل تھے۔یہود ان لوگوں سے ایسا معاملہ کرتے تھے کہ جس سے ظاہر ہوتا کہ یہ ان سے قدر و منزلت میں کم(اچھوت /کم ذات) ہیں۔
جب قیدی یہودی واپس لوٹے تو انھوں نے سامریوں کے اعتقاد اور شعائر کا انکار کیا‘اور انہیں یہودیت کے منافی جانا، بلکہ وہ انہیں بت پرستی کی طرف منسوب کرنے لگے۔ [3]
سامری فرقہ کا قبلہ ’’غریزیم‘‘ نامی ایک پہاڑ ہے، جو بیت المقدس اورنابلس کے درمیان واقع ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ بیت المقدس کو نابلس کے پہاڑ پر تعمیر کریں۔ یہی وہ طور ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔
عام یہودی بیت المقدس کو قبلہ مانتے ہیں جبکہ سامری یہودی ان کے خلاف اس پہاڑ کو قبلہ مانتے ہیں ؛[اور اس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے ہیں ]۔ [4]
سامری فرقہ کی ایک علیحدہ ہی تورات ہے، جو اس تورات سے مختلف ہے جوباقی تمام یہودیوں کے پاس ہے۔ [5] وہ صرف ان پانچ اسفار پر ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں۔وہ سفر یوشع ؛ سفر قضاۃ کے علاوہ باقی تمام اسفار، عہد قدیم اور اسفار تلمود کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے ہاں معتمد اسفار کی نصوص دوسرے لوگوں کے ہاں معتمد اسفار کی نصوص سے بہت مختلف ہیں۔[6]
سامری اور عبرانی تورات کی نصوص کے مابین اختلاف کی بعض مثالوں کا ذکر ’’یہودیوں کی تورات میں تحریف ‘‘ کے بیان میں آئے گا۔[7]
[1] یہ لوگ آشور سے نسبت رکھتے ہیں جو کہ سام بن نوح علیہ السلام کا دوسرا بیٹا تھا۔اس کے نام کا اطلاق قبائل آشور اور بلاد آشور پر ہوتا ہے۔ آشور دریائے دجلہ کے انتہائی بالائی حصہ پر واقع ہے۔ اس کا دار الحکومت نینویٰ کا شہر تھا جو کہ دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ القاموس الموجز لکتاب المقدس ص ۵۶۔
[2] القاموس الموجز لکتاب المقدس : ۱۰۳۔
[3] ’’أضواء علی الیہودیۃ من خلال مصادرہا‘‘… ’’یہودیت پر ایک نظر ان کے مصادر کی روشنی میں۔‘‘ڈاکٹر محمد احمد دیاب عبدالحافظ ص ۱۶۳۔
[4] انظر: الشہرستانی: الملل والنحل: ۱؍۱۷۷۔
[5] ابن حزم: الفصل في الملل والأہواء والنحل ۱/۱۷۷۔
[6] الاسفار المقدسۃ في الأدیان السابقۃ لدکتور علی بن عبد الواحد وافی ص ۶۶۔
[7] انظر ص: ۳۶۷۔