کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 318
اب یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام شہر کا وہ نام لیں ؛ جو ان کے دور میں اس نام سے معروف ہی نہ تھا؟
تیسری مثال :…سفر لاویین میں ایسی دلیل موجود ہے جو ثابت کرتی ہے کہ اس کے دو مؤرخ تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی شریعت لکھاکرتے تھے، اس لیے کہ یہ سفر ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے :
’’رب نے موسیٰ علیہ السلام کو بلایا اورمیٹنگ والے خیمہ سے یہ کہہ کر ان سے کلام کیا۔‘‘[1]
اگر یہ کتاب لکھنے والے خود موسیٰ علیہ السلام ہوتے تووہ یوں لکھتے :
’’ میٹنگ والے خیمے سے مجھے رب نے پکارا،اور مجھ سے کلام کیا …۔‘‘یا اس سے مشابہ کوئی اورملتی جلتی بات کہتے۔[2]
اور تورات کے اسفار میں کئی جگہوں پریہ عبارت بار بار آئی ہے :’’ اور رب نے موسیٰ سے کلام کیا…‘‘[3]
چوتھی مثال : …یہی اسفار ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تورات بہت ہی مختصر تھی؛ جنہیں بارہ پتھروں پر واضح خط میں لکھا ہوا تھا۔ سفر تثنیہ میں ہے :
’’موسیٰ علیہ السلام اور اسرائیل کے تمام شیوخ نے قوم کو یہی کہتے ہوئے نصیحت کی …:’’ اپنی ذات کے لیے ایک بڑا پتھر تیار کرو اور اسے اچھی طرح چونا گچ کر لو؛اس پر اس ناموس سے تمام کلمات لکھے جائیں گے۔ …اور پتھر پر یہ کلمات واضح نقوش میں لکھے جائیں گے۔‘‘[4]
وہ پانچ اسفار جو اب کتاب مقدس کے نسخہ میں اب موجود ہیں، وہ تین سو چھتیس (۳۳۶) صفحات پر مشتمل ہیں۔ اور ایک صفحہ میں (۲۱) سطریں ہیں۔ اور ایک سطر میں (۱۲) بارہ کے قریب کلمات ہیں۔ اگر ہم ان کے حجم کا آپس میں موازنہ کریں،تو جوتورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں موجود تھی ؛ اور جو آج موجود ہے ؛ تو ہم ان اضافات کا ادراک کرسکتے ہیں جن کا کاتب نے موسیٰ علیہ السلام کے بعداپنی طرف سے اضافہ کیا ہے۔[5]
پانچویں مثال : …سفر خروج میں آیا ہے :
’’رب نے موسیٰ ( علیہ السلام ) سے کہا : ’’ دیکھو: میں نے تمہیں فرعون کا معبود بنایا ہے، اور تیرا بھائی ہارون تیرا نبی بنایا ہے۔‘‘[6]
[1] دیکھو: سموأل بن یحی افحام الیہود ص ۱۳۵-۱۴۱؛ اور ابن حزم کی کتاب ’’الفصل في الملل والأھواء والنحل ۱/۲۰۱؛ وما بعدھا ؛ رحمت اللّٰه ہندی اظہار الحق ص ۲۲۴-۲۳۲؛ ڈاکٹر أحمد الحجازی نقد التوراۃ ص۶۱-۷۳۔
[2] مشرقی اردن میں واقع ہے۔ القاموس الموجز لکتاب المقدس ص ۶۴۲۔
[3] سفر التثنیۃ الإصحاح الرابع والثلاثون فقرۃ (۱-۸)۔
[4] سفر التکوین الإصحاح الرابع عشر فقرہ (۱۴)۔
[5] انظر : د / أحمد حجازی : نقد التوراۃ ص ۶۲۔