کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 317
(جس کی نص یہ ہے ): حضرت موسیٰ علیہ السلام عربات موآب سے جبل نبو پر فسجہ کی چوٹی کی طرف سے چڑھے۔ وہاں پر رب کے بندہ موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ ارضِ موآب میں [1] رب کے قول کے مطابق۔ اور سر زمین موآب میں جواء کے مقام پر بیت فغور کے بالمقابل ان کی تدفین ہوئی۔ اور ان کی قبر کا کسی کو آج تک علم نہیں ہوسکا۔ اور موت کے وقت موسیٰ علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ آپ کی آنکھیں پھیکی نہیں پڑی تھیں (نظر کمزور نہیں ہوئی تھی) اور نہ ہی آپ کے چہرہ کی ترو تازگی ختم ہوئی تھی۔ بنو اسرائیل ارضِ موآب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس تیس روز تک رہتے ہے۔ ایسے موسیٰ علیہ السلام پر سوگ کے دن روتے ہوئے پورے کیے گئے۔‘‘[2] کون سا عقل مند ایسا ہے جو اس بات کی تصدیق کرے کہ موسیٰ علیہ السلام نے خود ہی تورات میں اپنے مرنے؛ دفن ہونے اور بنی اسرائیل کے رونے کی خبر لکھی ہوگی۔ جو اس نص پر غور و فکر کرے گا اس کو دو فائدے ضرور حاصل ہوں گے: پہلا فائدہ : …یہ بات ممکن نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ کلام خود ہی لکھا ہو، کیونکہ یہ بات عقلاً محال ہے۔ دوسرا فائدہ :…یہ عبارت کہ: ’’ ان کی قبر کا کسی کو آج تک علم نہیں ہوسکا‘‘ اس بات پر دو ٹوک دلیل ہے کہ یہ جملہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بہت لمبے عرصہ بعد لکھا گیاہے۔ یعنی اتنا لمبا زمانہ گزر چکا تھا جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کا پہچاننا محال ہوگیا تھا۔ اور عام طور پر ایسا اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت اور سفر کی تالیف کے مابین کئی نسلیں گزرچکی ہوں۔ دوسری مثال : …سفرتکوین میں آیا ہے : ’’جب ابرام نے سنا کہ اس کا بھائی غلام بنالیا گیا ہے ؛ تو اس نے اپنے بھائی کے گھر کے تین سو اٹھارہ بالغ لڑکے اکٹھے کیے اورانہیں ’’دان‘‘ لے گیا۔‘‘[3] دان ایک گاؤں کا نام ہے، جو ’’دان بن یعقوب علیہ السلام ‘‘کے نام پر رکھا گیا ہے۔یہ گاؤں بنواسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں فتح نہیں کیا ؛ بلکہ یہ بنی اسرائیل کے قاضیوں کے دور میں فتح ہوا ہے۔[4] اس بستی کا پہلا نام ’’لایش‘‘ تھا؛ سفر قضاۃ میں ہے : ’’ انہوں نے اس شہر کو ان کے باپ ’’دان‘‘ کے نام پر ؛ جوکہ اسرائیل کا بیٹا تھا؛ ’’دان ‘‘ کا نام دیا۔ لیکن اس شہر کا نام پہلے ’’ لایش ‘‘ تھا۔[5]
[1] فتح القدیر ۱/۳۵۴۔