کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 316
بات) جانتے بھی ہیں۔‘‘ علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ یعنی اس میں تحریف کرتے ہیں، اور مقصود سے ہٹ جاتے ہیں۔‘‘ ’’لَي‘‘ کا اصل معنی ہے : میلان ؛ کہاجاتا ہے : ’’لوَّی برأسِہ‘‘ اس نے اپنے سر کو جھکایا ؛ جب وہ سر کو نیچے کی جانب مائل کرے۔ ثانیاً : عہد عتیق میں ان کی کتب میں تحریف پر دلائل : قرآن کریم یہود اور تورات میں ان کی تحریف کے بارے میں بیان کرتا ہے اورکلمات کی تحریف میں ان کے اسلوب، اور حق کو باطل کے ساتھ ملانے کا ذکر کرتا ہے۔ اور قرآن کریم (جس میں آگے اورپیچھے کہیں سے بھی کوئی باطل داخل نہیں ہوسکتا) نے اس مسئلہ کا پوری طرح احاطہ کیا ہے۔ اور اس کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں نہ ہی کوئی اشتباہ ہے اور نہ ہی گہرائی۔ جو کچھ بھی ہمارے رب کی کتاب میں آیا ہے ؛ ہم اس پر ایمان لائے اور اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہودی قرآن پر ایمان نہیں رکھتے؛ اس لیے قرآن سے ان کی تحریف پر دلائل پیش کرنے کے بجائے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی اپنی کتابوں سے دلائل پیش کئے جائیں تاکہ ان پر حجت ثابت ہوسکے۔ ذیل میں ان کی کتابوں میں سے عہد قدیم سے اس تحریف پر دلائل پیش کئے جارہے ہیں : پہلی وجہ : دلالت ِنصوص تورات کہ اس کا کاتب موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی ہے: جو انسان تورات کے پہلے پانچ اسفار کا مطالعہ کر ے، یہ وہ اسفار ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں۔ اور ان کے بارے میں یہود کا گمان ہے کہ انہیں موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا؛ تو اسے اس بات کا بغیر کسی شک و شبہ کے پکا علم حاصل ہوجائے گا کہ یہ اسفار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتابت نہیں ہیں۔ اور نہ ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کے لکھے ہوئے ہوں۔ بلکہ یہ اسفار خود اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک لمبے زمانے کے بعد لکھا گیا ہے۔ پرانے زمانے کے اور دور حاضر کے (ہر دور کے) علماء محققین[1] نے بہت زیادہ مثالیں ایسی پیش کی ہیں جن سے یقیناً ان اسفار کی کامل طور پر سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف نسبت محال ہوجاتی ہے۔ ان میں سے ہم بعض مثالیں آنے والی سطور میں پیش کرتے ہیں : پہلی مثال : … سفر تثنیہ میں ارض ِ موآب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت اور ان کی تدفین کی خبر کا تذکرہ ہے۔
[1] أنظر:فخر الدین الرازی : التفسیر الکبیر ۱۰/ ۱۱۸۔ [2] تفسیر ابن کثیر ۱/ ۸۴۔