کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 315
علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت: ﴿یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہِ ﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’وہ ان نصوص کے فاسد معانی بیان کرتے ہیں ؛ اس میں یہ بیان نہیں کہ وہ ان الفاظ کو کتاب سے نکال دیتے تھے۔جب دوسری آیت ﴿یُخَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِہِ ﴾ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دونوں کو جمع کیا کرتے تھے۔ فاسد تاویلات بھی بیان کیا کرتے تھے؛ اور الفاظ کو کتاب سے نکال بھی دیا کرتے تھے۔‘‘[1]
۳۔ حق کی باطل کے ساتھ ملاوٹ :
اس سے مراد لوگوں کے لیے معانی کو ایسے بدل کر بیان کرنا ہے جس سے حق باطل اور باطل حق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَلَا تَلْبِسُوْا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرہ:۴۲)
’’ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بُوجھ کر نہ چھپاؤ۔‘‘
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’حق کی باطل کے ساتھ ملاوٹ نہ کرو،اور نہ ہی سچ کی جھوٹ کے ساتھ۔‘‘
ابو عالیہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ ؛ اور امت محمد میں اللہ کے بندوں کے لیے نصیحت کا حق ادا کرو۔‘‘
حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہودیت اور نصرانیت کو اسلام کے ساتھ نہ ملاؤ ؛ اور تم جانتے ہو کہ اللہ کا دین اسلام ہی ہے ؛ اور یہودیت اور نصرانیت بدعت ہیں، اللہ کی طرف سے نہیں ہیں۔‘‘[2]
۴۔ زبان موڑ کر کلام بیان کرنا :
یعنی اس کو لمباکرنا ؛ اس میں تحریف کرنا، اور معنی مقصود سے ہٹ کر بیان کرنا ؛ فرمان ِ الٰہی ہے :
﴿ وَ اِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَہُمْ بِالْکِتٰبِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَقُوْلُوْنَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾ (آل عمران :۷۸)
’’اور ان ( اہل کتاب) میں بعض ایسے ہیں کہ کتا ب (تورات) کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے (نازل ہوا) ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا اور اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اور (یہ
[1] تفسیر ابن کثیر ۱/۵۰۷۔
[2] تفسیر فتح القدیر ۲/۴۱۔