کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 314
’’بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے اور ہماری رعایت کر (لیکن اس کہنے میں ) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی آپ سنئے ہمیں دیکھئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالی نے ان کے کفر سے انہیں لعنت کی ہے پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔‘‘ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ : ﴿یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ وہ کلمات کے معنی سے ہٹ کر اس کی تاویل کرتے ہیں،اور جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہوئے اس کی مراد کے برعکس اس کی تفسیر کرتے ہیں۔‘‘[1] ۲۔ (عبارت میں ردو بدل) تحریف کلام : یہ کام وہ الفاظ و عبارات میں تبدیلی؛ اورانہیں اپنی جگہ سے آگے پیچھے کرکے کیا کرتے تھے تاکہ معنی مقصود باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِہِ ﴾ (المائدہ :۴۱) ’’اوریہودیوں میں ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ایسے لوگوں (کے بہکانے) کے لیے جاسوس بنے ہیں جو ابھی تک آپ کے پاس نہیں آئے ؛ وہ کلمات کو اصل جگہ چھوڑ کر بدل دیتے ہیں۔‘‘ علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’اس کے بعد کہ وہ لفظ اپنی جگہ کے لیے موزوں تھا؛ یا اس کو اس جگہ پر رکھنے کے بعد جہاں اللہ تعالیٰ نے اسے لفظ اور معنی کے اعتبار سے رکھاہے۔‘‘[2] پہلی اوردوسری قسم کی تحریف میں فرق یہ ہے کہ: پہلی قسم کی تحریف معانی کے ساتھ خاص ہے۔سو اس طرح وہ کلمہ کی تفسیر اس کے صحیح معنی سے ہٹ کر کیا کرتے تھے۔ جب کہ دوسری قسم کی تحریف دونوں باتوں کو شامل ہے۔ یعنی کلمہ کی تفسیر اس کے صحیح معنی سے ہٹ کر بیان کرنا اور لفظ کو اپنے اصلی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ پر لے جانااور عبارت میں ردو بدل کرنا۔ (تاکہ معنی اور عبارت دونوں بدل جائیں، اور کسی دوسرے کے لیے صحیح معنی تک پہنچنے کاکوئی امکان تک باقی نہ رہے …[مترجم])
[1] تفسیر ابن کثیر ۴/۳۶۴۔