کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 31
سوائے اس کے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں کلمہ ’’یہود ‘‘ کے استعمال کااطلاق ان لوگوں پر اس وقت ہوا ہے جب یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور صحیح دین سے منحرف ہوچکے تھے۔[1]
یہ اس لیے ہے کہ قرآن کریم میں یہودی نام کا اطلاق ان لوگوں پر بطور مدح کے نہیں کیا گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نیک اولاد کی یہود کی طرف نسبت کے انکے جھوٹے مزاعم پر رد کرتے ہوئے فرمایا ہے :
﴿أَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ کَانُوْا ہُوْدًا أَوْ نَصَارٰی قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللّٰہُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہُ مِنَ اللّٰہِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ (البقرہ:۱۴۰)
’’(اے یہود و نصاریٰ) کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھے؟ (اے محمد! ان سے) کہو کہ بھلا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ؟ اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی شہادت (اس گواہی) کو جو اس کے پاس (کتاب میں موجود) ہے چھپائے اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔‘‘
دوسری بحث : …یہود کے مشہور فرقے
یہودی بہت پہلے زمانے سے ہی مذہبی اور سیاسی طور پر ٹوٹ پھوٹ او رافتراق و تفریق کا شکار ہو کر بہت سے فرقوں میں بٹ چکے تھے۔ جن کی تعداد ستر سے زیادہ ہے۔ ہمارے لیے یہاں پر ان فرقوں کا شمار کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی ان کے درمیان واقع ہونے والے دینی اور سیاسی اختلاف کو ذکر کرنا مقصود ہے۔ یہاں پر فقط چند مشہور فرقوں کا مختصر تعارف کروایا جائے گا۔
۱۔ سامری :
سامری فلسطین کے شمال میں واقع ایک علاقہ کی طرف منسوب ہیں کیونکہ یہ جماعت یہیں پیدا ہوئی؛ یہیں پروان چڑھی۔ اور ان کی سرگرمیاں بھی یہیں مرکوز رہیں۔[2]
[1] اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو دین اسلام کی دعوت کے لیے بھیجا تھا ‘وہ خود کو مسلمان کہتے تھے اور ان کے ماننے والے بھی مسلمان کہلاتے تھے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مِلَّۃَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ہَذَا ﴾ (الحج ۷۸) ’’ یہی تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے، اسی نے تمہیں پہلے بھی مسلم ہونے کے خطاب سے نوازا اور اب بھی۔‘‘ اس کے متعلق مزید جاننے کے لیے دیکھو: محاسن اسلام ؛ از شفیق الرحمن (مترجم)۔
[2] ’’أضواء علی الیہودیۃ من خلال مصادرہا۔‘‘…’’یہودیت پر ایک نظر ان کے مصادر کی روشنی میں۔‘‘ڈاکٹر محمد احمد دیاب عبد الحافظ ص ۱۶۳۔