کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 307
مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرہ: ۷۵)
’’ (مومنو!) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہو جائیں گے؟ (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلامِ الٰہی (یعنی تورات) کو سنتے پھر اسے سمجھ لینے کے بعد اس کو جان بوجھ کر بدلتے رہے ہیں۔‘‘
اور دوسری آیت میں بیان کیا ہے کہ ان کے عدم ِ ایمان کی علت دل کی سختی ہے جو تحریف قرآن کی وجہ سے حتمی طور پر آتی ہے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنَّاہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قَاسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہِ وَنَسُواْ حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُواْ بِہِ ﴾ (المائدہ: ۱۳)
’’ تو اُن لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب ہم نے اُن پر لعنت کی اور اُن کے دلوں کو سخت کر دیا؛یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اُن کا بھی ایک حصہ فراموش کر بیٹھے۔‘‘
بے شک یہ آیات یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب کو بدل ڈالا ؛ اور اس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں ان پر ذلت اور رسوائی کو مسلط کردیا۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے یہود اور دوسری سابقہ امتوں کے بارے میں قرآن میں نازل کیا ہے، وہ اس امت کے لیے عبرت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ ِلّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ﴾ (یوسف: ۱۱۱)
’’ان کے قصوں میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔‘‘
جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ سابقہ امتوں کے قصے ذکر کرتے ہیں وہ اس وجہ سے ذکر کرتے ہیں تاکہ اس امت کو ان امور اور گناہوں سے ڈرایا جائے جن میں یہ سابقہ لوگ مبتلا ہوگئے تھے۔
لیکن کتاب اللہ میں اس تحریف کی وجہ سے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے یہود کے ساتھ اس دنیا میں کیا تھا، اور جس دردناک عذاب کا وعدہ آخرت میں کر رکھا ہے، رافضیوں نے اس سے کوئی نصیحت حاصل نہ کی بلکہ انہوں نے بھی تغییر و تبدیل؛ تقدیم و تاخیر؛ کم اور زیادہ کرکے قرآن میں تحریف کی۔[1] سو اس جرم کی وجہ سے رافضی یہود کے مشابہ ہیں۔ اور ہر اس
[1] انظر: الأزہری: تہذیب اللغۃ ۵/۱۲؛ الفیروز آبادی ؛ القاموس المحیط ۳/۱۲۶؛ الرازی ، مختار الصحاح ص۵۶۔