کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 306
دوسری فصل :
کتب اللہ میں یہودی اور رافضی تحریف
تمہید :
تحریف کا معنی ہے کہ کسی چیز کو اپنے جگہ سے ہٹا کر اس کی جوانب میں سے کسی ایک جانب کردینا۔ یہ ’’حرف ‘‘سے ماخوذ ہے۔ حرف ہر چیز کے کنارے کوکہتے ہیں۔ اور پترے (استرے ) کی تیزی کوبھی کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق حروف ہیجا ء پر بھی ہوتا ہے۔ تحریف الکلام کا معنی ہے ؛ اس کو بدل دینا۔[1]
کلام میں تحریف کرنا، سب سے برا اور بدترین گناہ ہے کیونکہ اس سے حقائق اور معانی بدل جاتے ہیں۔ اور اس طرح سے حق باطل ہوجاتا ہے، اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔
یہ تو اس وقت ہوتا ہے جب تغییر[تبدیلی] مخلوق کے کلام میں ہو۔جب یہ تغییر خالق کے کلام میں ہو تو کوئی بھی اس عظیم جرم کے خطرات[اور خطرناک نتائج] کا اندازہ نہیں لگاسکتا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان لوگوں کو عذاب سے ڈرایا ہے جو کتاب کو خود لکھتے ہیں، اور پھر گمان کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِأَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہَـذَا مِنْ عِندِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہِ ثَمَناً قَلِیْلًا فَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ أَیْدِیْہِمْ وَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ ﴾ (البقرہ: ۷۹)
’’تو اُن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں اور پھرکہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے (آئی) ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیوی منفعت) حاصل کریں، ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ (بے اصل باتیں ) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر) ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ ایسے کام کرتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرنے کی جرأت کی، اس کے ایمان اور ہدایت کی کوئی امید نہیں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَفَتَطْمَعُوْنَ أَن یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہُ