کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 304
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اشیاء کا ہمیشہ ان کے پیدا کرنے سے پہلے بھی ایسے ہی عالم رہا ہے جیسے ان کے پیدا کرنے کے بعد ان کا عالم رہا ہے۔‘‘[1] پس یہ دونوں روایتیں تمام مخلوقات کے لیے اللہ تعالیٰ کے علم سابق پر دلالت کرتے ہیں، جو ان کو پیدا کرنے سے اور وجود میں لانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کوحاصل تھا۔‘‘ اور یہ روایات ان روایت سے ٹکراؤ رکھتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے لیے تجدید علم کی صراحت کی گئی ہے۔ اور مرتضیٰ کے اس سابقہ قول کے بھی معارض ہیں جس میں وہ ’’بداء‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو واقعہ کے رونما ہونے تک اس کا علم نہیں ہوتا۔ (تعالیٰ اللّٰه عن ذلک علواً کبیرًا۔) نیز کافی میں یہ روایت بھی ہے : ’’ صفوان بن یحییٰ سے روایت ہے وہ کہتا ہے میں نے ابو الحسین علیہ السلام سے کہا : ’’ مجھے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مخلوق کے ارادہ کے متعلق کچھ بتائیے ؟تو کہتا ہے : انہوں نے کہا: ’’ مخلوق کا ارادہ جو ان کے ضمیر میں پوشیدہ ہوتا ہے، اور بعد میں اس فعل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان کو پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں، اس لیے کہ وہ تو نہ ہی روایت کرتا ہے، اور نہ ہی غور و فکر کرتا ہے، اور نہ ہی اس کے اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ صفات اللہ تعالیٰ کے منافی ہیں، یہ مخلوق کی صفات ہیں۔‘‘[2] ان روایات میں ابو الحسن نے (ان کی روایات کے مطابق) اللہ تعالیٰ کے لیے عقیدۂ ’’بداء‘‘کے باطل ہونے کی صراحت کی ہے ؛ جیساکہ وہ فرماتے ہیں : ’’ مخلوق کا ارادہ جو ان کے ضمیر میں پوشیدہ ہوتا ہے، اور بعد میں اس فعل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان کو پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ‘‘ پھر اس کے بعد فرمایا:’’ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے منافی ہیں، یہ مخلوق کی صفات ہیں۔‘‘ ان صفات میں ذکر کیا کہ ’’ولا یَہِمُ ‘‘ …’’اوروہ ارادہ نہیں کرتا / پرواہ نہیں کرتا۔‘‘ اور ان لوگوں کی سابقہ روایات میں ہے ’’ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا۔ سوعقیدۂ ’’بداء‘‘ کے بارے میں اس روایت کا سابقہ روایات سے ٹکراؤ ظاہر ہوگیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ کلینی نے اس روایت کو اصول الکافی کی کتاب التوحید میں نقل کیا ہے۔ اس روایت کے تقریبًا تیس صفحات یا اس سے کچھ کم صفحات کے بعد اسی باب میں بداء کی روایات نقل کی ہیں۔ رافضیوں کی کتابوں میں بھی تناقض کا یہ حال ہیکہ جب کبھی بھی کوئی روایت نقل کرتے ہیں تو ساتھ ہی اس کی الٹ / نقیض بھی روایت کرتے ہیں۔ بھلے یہ روایت اس کتاب میں نہیں تو کسی دوسری کتاب میں مل ہی جائے گی۔ یہ بات کا ہروہ انسان جانتا ہے جس نے
[1] اصحاح ۲۱؛ فقرہ ۵۔ [2] اصحاح ۴۴؛ فقرات (۶-۸)۔ [3] أصول الکافی ۱/ ۱۰۷۔