کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 303
دل اس امر کے ادراک سے اندھے ہو چکے تھے۔ تاکہ ان کے لیے دنیا و آخرت میں ایک دندان شکن حجت بن جائے۔ سفر جامعہ میں ہی ہے:
’’ جیساکہ آپ نہیں جانتے کہ ہوا کا راستہ کون سا ہے۔ اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ حاملہ کے پیٹ میں ہڈیاں کیسی ہیں۔ اورنہ ہی ان اعمال کو جانتے جو سب کرتے ہیں۔‘‘[1]
یہ نص دلالت کرتی ہے کہ ہواؤں کے رخ کا علم اور جو کچھ ماؤں کے رحم میں ہے؛ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ اور ساتھ ہی اس امید کے ختم ہونے پر بھی دلالت کرتے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں کی مصلحتوں کا ادراک کیا جاسکے، اس لیے کہ انسان اس کے اعمال کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
سفر اشعیا میں ہے :
’’ اور ایسے ہی کہتا ہے رب بنی اسرائیل کا بادشاہ، اور ان کے وفاداروں کا ؛ اور لشکروں کا رب! میں ہی اول ہوں، میں ہی آخر، اور میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اور جو کوئی میرے جیسا ہونے کا دعویٰ کرتا ہو اسے یہ بتادیا جائے اور اسے میرے سامنے پیش کیا جائے۔اور نہ ہی لوگوں کے بھید ٹٹولو،اور نہ ہی ان کی غیبت کرو، کیا میں نے آپ کو قدیم سے یہ نہیں بتادیا تھا اوراس کی خبرنہیں کردی تھی۔‘‘[2]
یہ نص مستقبل کے امور سے متعلق اللہ تعالیٰ کے علم ہونے کو، اور ان کی بابت رونما ہونے سے خبر دینے پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں یہودیوں پر رد ہے وہ کہتے ہیں کہ واقعات کے رونما ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو ان کا علم نہیں ہوتا۔‘‘
ثانیاً: رافضی کتب سے اس عقیدہ کا بطلان :
رہا رافضیوں کی کتابوں سے عقیدۂ بداء کا ابطال، اصول کافی میں ہے :
’’ابوجعفر علیہ السلام سے روایت ہے : بے شک آپ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ تھا اور کوئی بھی چیز نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ ہونے والے امور کا عالم رہا ہے۔ ان کے ہونے سے پہلے اس کا علم ایسے ہی ہے جیسے ہوجانے کے بعد۔‘‘[3]
اور ایوب بن نوح سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو الحسن علیہ السلام کو لکھا اور سوال کیا، کیا اللہ عزو جل اشیاء کو پیدا کرنے اور ان کی تکوین سے پہلے بھی انہیں جانتا تھا یا ان کو نہیں جانا یہاں تک کہ انہیں پیدا کردیا، یا ان کے پیدا کرنے اور بنانے کا ارادہ کر لیا ؛ تو اس نے اپنی تخلیق کو اس وقت پہچانا جب انہیں پیدا کر لیا ؛ اور اپنی تکوین کو اس وقت جانا جب تکوین مکمل ہو گئی ؟’’تو انہوں نے اپنے خط سے لکھ کر جواب دیا :
[1] اصحاح ۲۳؛ فقرات۱۶-۱۸۔
[2] اصحاح ۳؛ فقرات (۱۱-۱۵)۔