کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 302
اولا ً: یہودی کتب سے اس عقیدہ کا ابطال : سفر عدد (گنتی ) میں آیا ہے : ’’ سورب نے بلعام سے وفا کی، اوراپنا کلام اس کے منہ میں رکھا؛ اور فرمایا: ’’ بالاق کی طرف واپس پلٹ جاؤ اور اس طرح کلام کرو : اے بالاق ! اٹھو؛ اور میری بات کو کان لگا کر سنو؛ اے چڑیا کے بیٹے ! اللہ تعالیٰ انسان نہیں ہے کہ وہ جھوٹ بولے، اور نہ ہی انسان کا بیٹا ہے کہ اسے ندامت ہو۔‘‘[1] یہ صریح نص ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے صفت ِ ندامت کی نفی پر دلالت کرتی ہے، اور اسے اللہ تعالیٰ کے لیے محال بتاتی ہے۔ یہ نص ان دوسری نصوص کے مخالف ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف ندامت کو منسوب کیا گیاہے۔ تو اب لازم آتا ہے کہ یا یہ نص باطل ہو، یا دوسری نصوص باطل ہوں۔ سو یہ نص اللہ تعالیٰ سے صفت ندامت کی نفی کرتی ہے جبکہ دوسری نصوص اسے ثابت کرتی ہیں۔ جب ان کی کتابوں میں یہ واضح تناقض پایا جائے تو اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ ان نصوص کو حذف کردیا جائے جوباطل معنی پر دلالت کرتی ہیں۔ اور اس صحیح معنی کو برقرار رکھا جائے جس پر تمام آسمانی کتابیں ؛ عقل اور فطرت ِ سلیمہ گواہی دیتی ہے ؛ اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ندامت کا ثبوت محال ہے۔ سفر الجامعہ میں ہے : ’’انسان اللہ تعالیٰ کے اعمال کو شروع سے لے کر آخر تک پا ہی نہیں سکتا۔ اور یہ بات بھی جانی گئی ہے کہ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ابد تک کے لیے ہوں ؛ اس پر کوئی چیز زیادہ نہیں کی جاتی ؛ اور نہ ہی اس میں کسی چیز کی کمی کی جاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے سامنے یہ کام کرتا ہے تاکہ اس سے ڈر جائیں۔ جو تھا، وہ بھی شروع ہی سے تھا ؛ اور جو ہوگا وہ بھی شروع سے ہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وہی کام کرتے ہیں جس کا فیصلہ پہلے ہو چکا ہو۔‘‘[2] ایسے ہی یہ نص بھی تخلیق اور ایجاد سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ نص کا یہ جملہ : ’’جو تھا، وہ بھی شروع ہی سے تھا ‘‘ یہ ماضی میں جو کچھ گزر چکا ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اور عبارت کا یہ جملہ : ’’ اور جو ہوگا وہ بھی شروع سے ہی ہے۔‘‘ یہ ہر اس چیز کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تقدیر کے ہونے پر دلیل ہے جو مستقبل میں ہونے والی ہے۔ اور اس عبارت کا یہ جملہ :’’ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ابد تک کے لیے ہوں ؛ اس پر کوئی چیز زیادہ نہیں کی جاتی ؛ اور نہ ہی اس میں کسی چیز کی کمی کی جاتی ہے۔‘‘ یہ دلیل ہے کہ تخلیق تقدیر کے موافق ہوتی ہے۔ اور یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہے، اس میں کچھ کمی یا زیادتی کی جائے۔‘‘ یہودی جو کچھ ندامت اور رنجیدگی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں یہ اس کے منافی ہے جن سے تغییر اور تبدیلی لازم آتی ہے۔ سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اہل باطل کی زبانوں سے حق اگلوادیا ؛ اس کے بعد کہ ان کے
[1] بواسطۃ : لوامع الأنوار البہیۃ ۱/ ۱۴۸-۱۴۹؛ انہوں نے کہا ہے کہ علامہ ابن ابی العز الحنفی نے بھی اس طرح کا کلام نقل کیاہے۔