کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 301
’’اور اللہ تعالیٰ کے علم پر دلیلِ عقلی بے شک جہالت کے ساتھ اشیاء کی ایجاد محال ہے اور چونکہ اشیاء کو اس نے اپنے ارادہ سے ایجاد کیا ہے۔ اور ارادہ مستلزم ہے مراد کے تصور کو؛ اور مراد کے تصور سے مقصود مرادکا علم ہے۔ تو اس طرح کسی چیز کا وجود مستلزم ہے اس کے ارادہ کو، او رارادہ مستلزم ہے علم کو۔ اوراس لیے کہ مخلوقات میں ایسی عمدگی اور پختگی پائی جاتی ہے ؛ جو ان کے بنانے والے کو ان چیزوں کا علم حاصل ہونے کے لیے لازم ہے۔ اس لیے کہ پختہ اور عمدہ فعل ایسے فاعل سے نہیں ہوسکتا جسے علم نہ ہو۔ اور اس لیے بھی کہ مخلوقات میں ایسے بھی ہیں جو کہ عالم ہیں ؛ اور کمال کی صفات میں سے ہے۔ یہ بات ممتنع ہے کہ خالق کو کسی چیز کا علم نہ ہو۔ اس کے دو طریقے ہیں : پہلا طریقہ: یہ کہا جائے کہ ہم یہ بات ضروری طور پر جانتے ہیں کہ خالق مخلوق سے زیادہ اکمل ہے۔ اور واجب کا اکمل ہونا ممکن ہے۔ اورہم یہ بھی ضروری طور پر جانتے ہیں کہ بے شک اگر ہم دو چیزیں فرض کریں ؛ان میں سے ایک عالم ہو، اور دوسری چیز غیر عالم ہو تو عالم زیادہ اکمل ہوگا۔ اور اگر خالق عالم نہ ہوتا تو اس سے لازم آتا کہ مخلوق زیادہ علم والی ہے ؛ یہ بات ممتنع ہے۔ [ایسا نہیں ہوسکتا ] دوسرا طریقہ: وہ تمام علم جو ممکنات میں ہے، یعنی مخلوقات میں ؛ وہ اسی کی طرف سے ہے۔ اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ کمال کا فاعل (بنانے والا) اور اس کا موجد اس علم سے خالی ہو۔ بلکہ وہ اس علم کا زیادہ حق دار ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے ہی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔ وہ اور مخلوقات برابر نہیں ہوسکتے۔ نہ تمثیلی قیاس میں،اورنہ ہی شمولی قیاس میں بلکہ ہر وہ کمال جو کسی بھی مخلوق کے لیے ثابت ہو، تو خالق اس کا زیادہ حق دار ہے۔ اور ہر وہ نقص جس سے مخلوق کومبرا مانا جائے، بے شک خالق اس سے پاک و صاف ہونے کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘[1] رابعاً: یہود اورروافض کی کتب سے اس عقیدہ کا ابطال: جیسا کہ قرآن کریم، سنت مطہرہ،اور عقل ِ سلیم اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر یہودی اور رافضی افتراء ات کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں ؛ جو کہ وہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسے ندامت، رنجیدگی ؛ غم اور بداء وغیرہ۔ ایسے خود ان لوگوں کی کتابیں بھی اس فاسد عقیدہ کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ہر خواہش کے پجاری اور بدعتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ طریق کا ر کہ لازمی طور ان کے کلام میں ایسا تناقض اور الجھن پائی جائے جس سے ادنیٰ علم رکھنے والا انسان بھی اس بدعت کے باطل ہونے پر استدلال کرسکے۔ خود یہود اور رافضہ نے اپنی کتابوں میں جہاں دوسری روایات ذکر کی ہیں، وہاں پر وہ روایات بھی لے آئے ہیں جو اس مذہب کے فاسد اور باطل ہونے کی گواہی دیتی ہیں۔ والحمد للہ رب العالمین!!
[1] البخاری کتاب بدء الخلق ؛ باب: ماجاء في قولہ تعالی ﴿ھو الذی یبداء الخلق ثم یعیدہ ﴾۔ ح : ۳۱۹۱۔ [2] صحیح مسلم ، کتاب القدر، باب: أن الآجال والأرزاق وغیرہا لا تزید و لا تنقص عما سبق فی القدر،ح: ۳۵۷۲۔