کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 30
پہلی بحث:… یہود کا تعارف اہل لغت اور مفسرین کلمہ ’’یہود ‘‘ کی اصل ؛جس سے یہ مشتق ہے؛ اور یہود کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ تسمیہ میں مختلف آارء ہیں۔ ان میں سے بعض کا کہنا ہے یہ کلمہ ’’ھاد‘‘سے مشتق ہے ؛ اس کا معنی ہے ’’رجوع کرنے والا‘‘ یہ نام اس وقت رکھا گیا جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا سے توبہ کی۔ اور کہنے لگے: ﴿اِنَّا ھُدْنَا إِلَیْکَ﴾ (اعراف ۱۵۶) ’’بے شک ہم آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ‘‘ یعنی ہم نے توبہ کی اور رجوع کیا۔ یہ مفسرین کی ایک جماعت سے روایت کیا گیا ہے۔[1] اسے شہرستانی نے الملل و النحل میں ذکر کیا ہے۔ [2] بعض کہتے ہیں : کلمہ یہود کی اصل ’’تہود‘‘ سے ہے۔ جس کا معنی کمزور نرم، اور باریک آواز کو کہتے ہیں۔ اور یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ یہ تورات کو لَے(ترز) سے پڑھا کرتے تھے۔[3] اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ : یہود کانام یہود ’’یھوذا‘‘ کی نسبت سے پڑا۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا چوتھا بیٹا تھا۔ عربوں نے اس لفظ میں ذال کو دال سے بدل دیا تو یہوذ سے یہود ہوگیا۔ اور نسب کے ارادہ سے اس پر الف اور لام داخل کیے گئے تو ’’ الیہود ‘‘ ہوگیا۔ [4] حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان حتمی طور پر بنی اسرائیل پر’’ یہودی ‘‘نام کے اطلاق کی تاریخ اور سبب متعین نہیں کرسکتا؛کیونکہ اس پر نہ ہی اللہ کی کتاب اور نہ ہی سنت میں کوئی دلیل موجود ہے۔ یہ ساری اجتہادی باتیں اور لغوی قیاس آرائیاں ہیں جو دلیل نہیں بن سکتیں۔
[1] انظر : الأزہری تہذیب اللغۃ ۶/۳۸۷ ؛ وابن منظور : لسان العرب ۴/۴۵۱؛ والزبیدي: تاج العروس ۲/۵۴۸؛ وأمین ابحولي: تاریخ الملل والنحل :۲/۳۔ [2] الملل و النحل ۲/۲۱۰۔ [3] انظر : ابن منظور :لسان العرب ۴/۴۵۲؛ وأمین ابحولي: تاریخ الملل والنحل :۲/۳۔ [4] انظر: جواد علی : تاریخ العرب قبل الإسلام۶/۹۴۔ ابن منظور :لسان العرب ۴/۴۵۲۔