کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 299
فرماتے ہیں : ’’ مستقبل میں لوگوں کے افعال کا علم مخلوقات میں سے کسی ایک کو عطا ہو سکتاہے ؛ جیسے انبیاء، ملائکہ وغیرہ۔ تو پھر اللہ رب العالمین کو یہ علم کیوں کر نہ حاصل ہوگا ؟یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے جو کچھ مستقبل میں ان کی امت میں ہوگا۔ ٭ ان کا تذکرہ کرنا کافی لمبا ہوجائے گا، جیسے کہ: ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ آپ کے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ ؛ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔‘‘ اور یہ خبر دینا کہ ’’اس تفریق کے وقت ایک گروہ نکلے گا، جنہیں حق پر قائم گروہ قتل کرے گا۔‘‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خبر دینا کہ کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل پھر (مرتد ہو) جائیں گے۔‘‘ اور یہ کہ خلافت نبوت تیس سال تک ہوگی ؛ پھر اس کے بعد بادشاہی قائم ہو جائے گی۔‘‘ اور آپ کا خبر دینا کہ پہاڑ پر صرف نبی، صدیق اور شہید ہیں اور ان کے اکثر لوگ شہداء تھے۔ اوراسی طرح غزوہ بدر کے دن بڑے بڑے سرغنوں کے قتل کیے جانے سے پہلے ان کے قتل ہونے کی خبر دینا ؛ اور دجال کے خروج کی خبر دینا ؛ اور عیسیٰ علیہ السلام کے دمشق میں مشرقی منارہ پر نازل ہونے کی خبر دینا، اور عیسیٰ علیہ السلام کے باب ’’لُد‘‘[1] پر دجال کو قتل کرنے کی خبر دینا… ‘‘ اس طرح کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی خبریں ذکر کیے جانے سے بڑھ کر ہیں اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی جانتے ہیں جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے بہت سارے افعال جانتے ہیں ؛ تو پھر اس کا کیا عالم ہوگا جس نے انہیں پیدا کیا ہے، اور انہیں وہ علم سکھایا ہے جو وہ نہیں جانتے تھے؟‘‘[2] اور احادیث اس امر پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تقدیر ان کو پیدا کرنے سے ہزاروں سال پہلے مقدر کردی تھی۔ صحیح مسلم میں سیّدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر مقرر کی آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے ؛ اور اس کا عرش (اس وقت ) پانی پر تھا۔‘‘[3] صحیح بخاری میں بنی تمیم کے قصہ میں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے : ’’ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں،اس کائنات کی ابتدا کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ تھا،اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے اپنے پاس
[1] شرح عقیدۃ الطحاویۃ ص: ۱۰۳-۱۰۴۔ [2] لوامع الأنوار البہیۃ وسواطع الأسرار الأثریۃ ۱/۱۶۰۔ [3] صحیح البخاری، کتاب التفسیر؛ باب : اللّٰه یعلم ما تحمل کل أنثی وما تغیض الأرحام، ح: ۴۶۹۷۔ [4] البخاری، کتاب التہجد ؛ باب ما جاء في التطوع مثنی ،مثنی ،ح: ۱۱۶۲، ترمذی ۴۸۰۔ [5] صحیح البخاری، کتاب القدر؛ باب: اللّٰه أعلم بما کانوا عاملین، ح ۶۵۹۷۔