کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 298
اس سے قریب معنی[ملتا جلتا] کا تذکرہ علامہ ابن ابی العز حنفی[1] نے اور علامہ سفارینی[2] رحمہما اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔
ثانیاً: سنت رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل:
ایسے ہی سنت سے بھی اللہ تعالیٰ کے لیے علم کی صفت ثابت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے ؛ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غیب کی کنجیاں پانچ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والے کل میں کیا ہوگا۔دوسری یہ کہ:رحم کس چیز کو چھپائے ہوئے ہیں ؟ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور بارش کب آئے گی ؛اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور کوئی جی (نفس) نہیں جانتا کہ اس کی موت کس سر زمین پر آئے گی۔ اور قیامت کب قائم ہوگی؛ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘[3]
یہ امور جو حدیث میں بیان ہوئے ہیں مستقبل میں پیش آنے والے امور ہیں، اور حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے پیش آنے سے قبل اللہ تعالیٰ کو ان کا علم حاصل ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علم پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعائے استخارہ ہے۔
(( اللّٰهم إني استخیرک بعلمک، واستقدرک بقدرتک، و أسألک من فضلک العظیم، فإنک تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علَّام الغیوب)) [4]
’’اے اللہ! میں تیرے عِلم کے ساتھ تجھ سے بھلائی کی دعا کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ بھلائی کا حصہ مانگتا ہوں اور تیرے فضلِ عظیم کا سوال کرتا ہوں تو قادر ہے اور میں بے ہمت ہوں ؛ تو جانتا ہے، اور میں بے علم ہوں ؛بے شک تو غیب کا جاننے والا ہے۔‘‘
اور سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ بہت خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرنے والے تھے۔‘‘[5]
یہ احادیث اللہ تعالیٰ کے لیے تمام مخلوقات کے سابق علم پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کے پیدا ہونے اور وجود میں آنے سے [پہلے وہ جانتاہے کہ ] جس اندازِ طبیعت پر وہ ہوں گی؛ اور آخر کار جو کچھ ان کا انجام ہوگا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
[1] مجموع الفتاویٰ ۱۴/۴۹۱-۴۹۲۔