کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 295
’’جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرہ: ۳۰)
’’میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
یہ آیت ان امور کوبھی متضمن ہے جو آدم اور ابلیس کی اولاد سے ہوں گے؛اور جو کچھ ان امور پر مرتب (یعنی ان کا انجام ) ہوگا۔
یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کوعلم تھا کہ آدم کو جنت سے نکالا جائے گا؛ اس لیے کہ اگر انہیں جنت سے نہ نکالا جاتا تووہ زمین میں خلیفہ نہ بنتے۔سوبے شک اس نے حکم دیا تھا کہ وہ جنت میں رہیں، مگر اس درخت کل پھل نہ کھائیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا ہَـذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُونَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ ﴾ (البقرہ: ۳۵)
’’ اور ہم نے کہا: اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو بلا روک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَقُلْنَا یَا آدَمُ اِنَّ ہَذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشَقٰٓی o اِنَّ لَکَ أَلَّا تَجُوْعَ فِیْہَا وَلَا تَعْرٰیo وَأَنَّکَ لَا تَظْمَأُ فِیْہَا وَلَا تَضْحٰٓی﴾ (طہ:۱۱۷۔ ۱۱۹)
’’ ہم نے فرمایا کہ آدم! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو یہ کہیں تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے، پھر تم تکلیف میں پڑ جاؤ۔ یہاں تم کو یہ (آسائش) ہو گی کہ نہ بھوکے رہو نہ ننگے۔ اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔‘‘
اسے منع کیا تھا کہ وہ ان دونوں کو جنت سے نکالے اور انہیں ابلیس کی اطاعت سے روکا تھا جوکہ جنت نکالے جانے کا سبب ہے۔ اور درخت کا پھل کھانے سے منع کیا، اس لیے کہ اس نے اس سے پہلے ہی فرمادیاتھا:
﴿ِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً﴾ (البقرہ:۳۰)
’’بے شک میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘
پھر اس کے بعد فرمایا:
﴿ وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ﴾ (البقرہ: ۳۶)
[1] تفسیر الطبری ۱/۱۶۸۔
[2] تفسیر الطبری ۱/۱۶۸۔
[3] تفسیر الطبری ۱/۱۶۸۔