کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 294
ان آیات کریمہ میں یہودیوں اور رافضیوں پر بہت بڑاردہے ؛ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو معاملات کے رونما ہونے تک ان کی خبر نہیں ہوتی اور یہ کہ کبھی وہ کسی کام کا حکم دیتا اور پھر نئی مصلحت کے پیش آنے کی وجہ سے اس کی رائے بدل جاتی ہے۔
سو اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ان کی تقدیر مقرر کی اورکائنات میں کوئی بھی چیز اس کے مقررشدہ تقدیراورتدبیر سے باہرنہیں جا سکتی۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے لوحِ محفوظ میں لکھے ہوئے سے تجاوز کرسکتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰائِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرہ:۳۰)
’’ اور (وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کُشت و خون کرتا پھرے؟ اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’یعنی میں ابلیس کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہوں جوتم نہیں جانتے۔‘‘[1]
اور امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ ابلیس کی نافرمانیاں معلوم تھیں، اور وہ اسی لیے پیدا کیاگیا تھا۔‘‘[2]
اور قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ بھی اس کے علم میں تھاکہ ان مخلوقات میں انبیاء و مرسلین، نیکو کار لوگ اور جنت کے رہنے والے بھی ہوں گے۔‘‘[3]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ملائکہ نے انسانوں کی تخلیق سے پہلے ہی اس بات کا حکم لگایا کہ آدمی زمین میں خونریزی کریں گے اور فساد پھیلائیں گے۔ اوران کو تو صرف وہی علم حاصل ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا ہے، جیسے کہ خودانہوں نے اقرار کیاتھا :
﴿لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا﴾ (البقرہ:۳۲)
[1] مجموع الفتاویٰ ۲/۲۱۱۔