کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 293
دوسرے لوگ عقلی اور قیاسی استدلال کرسکیں ؛ہر طرح علم کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ان وجوہات میں سے : اول:… اللہ تعالیٰ ان چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے اورتمام مخلوقات تقدیر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ تمام مخلوقات کے وجود سے قبل ان کی تقدیر موجود ہو۔ دوم:… یہ ارادہ اورمشیت کو مستلزم ہے۔اور ارادہ مستلزم ہے:مراد کے تصوراوراس کے شعور کو، یہ طریقہ اہل کلام کے ہاں مشہور ہے۔ سوم:… ان کا صدور اللہ کے ہاں سے ہوا ہے اور یہ اس کاپورا سبب ہے۔ کسی چیز کی اصل بنیاداور اس کے اسباب کا علم ہونا اس کی فروعات اورمسببات کے علم کو واجب کرتا ہے ؛ خود اس چیزکاعلم ہونا اس سے صادر ہونے والی تمام اشیاء کے علم ہونے کوواجب کرتا ہے۔ چہارم:… بے شک وہ فی نفسہ لطیف ہے ؛ انتہائی باریک چیزوں کا ادراک رکھتا ہے۔ وہ خبیر ہے، مخفی چیزوں کا اسے ادراک ہے۔ اور اس کا تقاضا ہے کہ اُسے تمام اشیاء کا علم ہو۔ مقتضی کے وجود سے پورے پورے سبب کا وجود واجب ہوتا ہے۔سو وہ اشیاء کے علم میں بذاتِ خود مستغنی ہے، جیسا کہ وہ اپنی تمام صفات میں بذات ِ خود غنی ہے۔‘‘[1] اور ایسے ہی بہت ساری آیات تقدیر کے کائنات کے وجود سے قبل پائے جانے پر دلالت کرتی ہیں۔ [ان جملہ آیات میں سے چند یہ ہیں ]۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیْرًا ﴾ (الفرقان:۲) ’’اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ ﴾ (القمر:۴۹) ’’ہم نے ہر چیز اندازئہ مقرر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَکَانَ أَمْرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ﴾ (الاحزاب:۳۸) ’’ اللہ تعالیٰ کے کام اندازے پر مقرر کیے ہوئے ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی o وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی﴾ (الاعلٰی: ۲۔۳) ’’ جس نے پیدا کیااوردرست بنایا اور جس نے صحیح اندازہ کیااورپھر رستہ بتایا۔‘‘