کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 291
چوتھی بحث :… اللہ کی طرف حزن،ندامت اور بداء کی نسبت کا ابطال میں (مؤلف) نے سابقہ مباحث میں تذکرہ کیا ہے کہ ان اوصاف کا اللہ تعالیٰ پر اطلاق کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف جہالت کی نسبت لازم آتی ہے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کوکسی چیز کی مصلحت کا علم اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ واقعہ رونمانہ ہوجائے۔اور یہ کہ امورِ مستقبل اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی تقدیر کے تحت نہیں ہیں۔ (تعالیٰ اللّٰه عن ذلک حالانکہ واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کوان باطل معانی سے منزہ [پاک]سمجھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیزکا جوہوگئی یاہونے والی ہے‘اس کا علم رکھتے ہیں۔ اورزمین و آسمان کی کوئی چیز ان پر مخفی نہیں ہے۔ اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے مخلوق کوپیدا کرنے سے پہلے ان کی تقدیر مقرر کردی ہے؛ اوران کی پیدائش اس تقدیر کے موافق تھی۔اس بات پر تمام آسمانی مذاہب کااتفاق ہے۔ اور فطرت اور عقل ِ سلیم کا اس پر اجماع ہے۔ یہودیوں اور رافضیوں نے جوکچھ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے، جیسے :بداء، غم و ملال، رنجیدگی و افسوس وغیرہ ؛ پھر اس پر جوفاسد نتائج مرتب ہوتے ہیں ان سب کے باطل ہونے ہونے پر کتاب اللہ، سنت اور عقل اور خود ان لوگوں کی کتابیں دلالت کرتی ہیں۔ اولاً : کتاب اللہ سے دلائل : قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے لیے صفت ِعلم کے اثبات؛اور ان یہودی و رافضی خرافات کی نسبت کے باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے؛جن سے اللہ تعالیٰ کے لیے جہالت کی نسبت لازم آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے علم کی صفت پر دلالت کرنے والی آیات بہت زیادہ ہیں ؛ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَعِنْدَہٗ مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا اِلَّا ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَاْبِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ o وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُمْ بِاللَّیلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ﴾ (الانعام:۵۹۔۶۰) ’’ اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں جن کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اُسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اُس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔ اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی
[1] ’’ الوشیعۃ فی نقد عقائد الشیعۃ ‘‘ ص: ۱۱۳-۱۱۴۔ [2] موقف الشیعۃ من أہل السنۃ: ۲۳۔۳۲۔