کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 290
مستقبل کے امور اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت میں داخل نہیں ہیں۔‘‘ تعالی اللّٰه عن ذلک!! اس تقابلی جائزہ سے ہمارے لیے ان دونوں عقیدوں کے درمیان بہت بڑی مشابہت کھل کر سامنے آتی ہے؛ جو اس بات کی تائید ہے کہ رافضیوں کے ہاں عقیدۂ بداء کا مصدر خالص یہودی ہے۔ بعض معاصراہل قلم نے ان دونوں عقائد ؛ [یعنی ] رافضیوں کے ہاں ’’بداء ‘‘ اور یہودیوں کے ہاں ان کے اسفار میں ذکر کردہ نصوص جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف ندامت منسوب کی گئی ہے ؛ ان میں مقارنہ [تقابلی جائزہ ] کیا ہے۔ ان مؤلفین میں ’’ موسیٰ الجار اللہ ہیں، جنہوں نے اپنی کتاب:’’ الوشیعۃ فی نقد عقائد الشیعۃ ‘‘ میں [تقابلی جائزہ لیتے ہوئے] یہودی اسفار سے بعض وہ نصوص نقل کی ہیں جن میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ندامت، رنجیدگی اور افسوس کو منسوب کیا ہے۔ پھر ان کے اور رافضی کتب میں جو کچھ ’’بداء ‘‘ کے متعلق آیا ہے ؛ ان کے مابین مقارنہ کیا ہے۔ ان نصوص کونقل کرنے کے بعد کہتا ہے : ’’پس بداء یہودی عقیدہ ہے ؛جو کہ یہودی اسفار اور عہد عتیق میں موجود ہے۔ سوائے اس کے کہ اس میں مجاز کے لیے کوئی مجال ہو۔پھر عقیدہ بداء یہودی اسفار سے متعدی مرض کی طرح ائمہ کی زبانی شیعی دلوں سے شیعی کتب میں پھیل گیا۔ آپ ان کتابوں کودیکھیں گے تو یہ عقیدۂ بداء کی روایات سے بھری ہوئی ملیں گی اور ان میں شیعہ امامیہ کے ایسے حددرجہ مبالغہ آمیز افسانے ہیں جن کی مانند کوئی بھی جھوٹ لے کر اللہ کے سامنے نہیں جائے گا۔‘‘[1] میرے علم کے مطابق موسیٰ الجار اللہ وہ پہلا انسان ہے جس نے یہ تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کویہ اعزاز اورفضیلت حاصل ہے کہ اس نے رافضی عقیدۂ ’’بداء‘‘ کی جڑیں یہودی اسفار سے تلاش کرکے نکالیں۔ ایسے ہی استاذ محمد مال اللہ نے بھی اپنی کتاب :’’ موقف الشیعۃ من أہل السنۃ ‘‘ میں اس کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔ جس میں اس عقیدہ میں یہودی رافضی موافقت کی تائید کی ہے۔ [2] ****