کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 289
۱۔ یہودی گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا۔اس دوران جب فرشتہ بنی اسرائیل کو ہلاک کررہا تھا، اللہ تعالیٰ کو اپنے اس فعل پر ندامت ہوئی ؛ اور فرشتے کو حکم دیا کہ وہ انہیں ہلاک کرنے سے رک جائے۔
جب کہ رافضی گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام لوگوں کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تھا، پھر اسے یہ بات خلاف مصلحت معلوم ہوئی، تو اس نے ہلاک کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
۲۔ یہودی گمان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا؛ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا کہا؛ تو اللہ تعالیٰ نے وہ فیصلہ واپس لے لیا۔
رافضی یہ گمان کرتے ہیں کہ جعفر صادق نے اپنے بیٹے اسماعیل کی موت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے گفتگو کی، تو اللہ تعالیٰ نے دو بار اس کی موت کو ٹال [موخر کر]دیا۔
۳۔ یہودی گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شاؤل کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا، اورپھر[معاذ اللہ ] اس فعل پر اسے ندامت ہوئی؛ اوررب سبحانہ و تعالیٰ نے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔
رافضی یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل بن جعفر ؛ اور ابو جعفر محمد بن علی کوشیعوں کے لیے امام متعین کردیا تھا؛ پھر اسے بداء ہوگیا،جس کی بناء پر اس نے ان دونوں کو تبدیل کردیا۔
۴۔ یہودی گمان کرتے ہیں کہ ندامت کی صفت اللہ تعالیٰ سے کبھی جدا نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ شر کے کام پر نادم ہوتا ہے۔
رافضی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نفس پر بداء لازم کردیا ہے، وہ جسے چاہتا ہے پہلے کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے دیر میں کرتا ہے۔
۵۔ یہودی گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ندامت کی صفت کا اطلاق کرنے میں اس کی مدح اور تعظیم ہے۔ ان کے اسفار میں آیا ہے: ’’بے شک تمہارا رب بڑا مہربان ہے؛ رحمت بہت زیادہ ہے۔ وہ برائی پر نادم ہوتا ہے۔‘‘
اور رافضی اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰکے لیے وصف ِ ’’بداء ‘‘ کااطلاق کرنے میں اس کی مدح و تعظیم اور اس کی عبادت ہے۔اوروہ کہتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسی کسی طرح نہیں کی جاتی جیسی ’’بداء ‘‘ میں ہے۔‘‘ اور ’’ اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرنے میں عقیدۂ ’’بداء‘‘ کی نظیر نہیں ملتی۔‘‘
تیسری وجہ : مضمون میں مشابہت :
جو کچھ یہودی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسے : ندامت، افسوس ؛ رنجیدگی ؛ اور جو کچھ رافضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسے بداء، ان سب کا آخر کار انجام و نتیجہ ایک ہی ہے، یعنی ’’اللہ تعالیٰ کی طرف جہالت کو منسوب کرنا۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ مصلحت کو اس وقت تک نہیں جانتے جب تک کہ وہ حادثہ یا واقعہ رونمانہ ہوجائے اور