کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 288
تیسری بحث : …اللہ کی طرف ندامت؛ حزن؛ اور بداء کی نسبت
میں یہودی رافضی مشابہت کی وجوہات
یہودیوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف حزن و ملال منسوب کرنے میں، اور رافضیوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف بداء منسوب کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
بلکہ مجھے اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کہ رافضیوں کا عقیدۂ بداء یہودی اسفار کی نصوص سے لیا گیا ہے۔ بس بعض الفاظ اورعبارات میں بہت تھوڑا ساہیر پھیر کردیا ہے۔ان دونوں عقائد کے درمیان مشابہت کی تین بڑی وجوہات ہیں :
پہلی وجہ : تسمیہ میں مشابہت :
یہودی اللہ تعالیٰ کے لیے ندامت، افسوس ؛ اور رنجیدگی کی صفات کا اطلاق کرتے ہیں اور رافضی اللہ تعالیٰ کے لیے صفت ’’ بداء ‘‘ کا اطلاق کرتے ہیں۔ ان اوصاف کے معانی پر غور کرنے سے انسان پر بخوبیظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ الفاظ بہت ہی قریبی معانی رکھتے ہیں۔
اس لیے کہ جو کوئی کسی کام پر نادم اور رنجیدہ ہو؛ یا افسوس کرے ؛ یا کسی متعین مسئلے میں کوئی رائے ظاہر کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو مراحل سے گزرے:
پہلا مرحلہ:… اس مسئلہ میں رائے کا بدلنا۔
دوسرا مرحلہ:… اسے وہ علم حاصل ہو، جس سے سابقہ مسئلہ میں خطا کے وقوع کا پتہ چلے اور پھر اس پر ندامت ہو۔
یہی وہ دو معانی ہیں جنہیں علماء لغت نے لفظ ’’ بداء ‘‘ کے معانی میں بیان کیا ہے۔
دوسری وجہ : نصوص میں مشابہت :
جو بات قطعی طور پر دلالت کرتی ہے کہ رافضیوں کا عقیدۂ’’ بداء‘‘ یہودی اسفار سے لیا گیا ہے، وہ یہودی اسفار کی نصوص اور رافضی کتب کی نصوص میں بہت بڑی مشابہت ہے۔
یہاں تک کہ بسا اوقات بعض حوادث؛ اور وہ قصص ؛ جن میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ندامت یا بداء منسوب کرتے ہیں، یہ واقعات اور ان کی عبارتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔
ذیل میں ان نصوص میں مشابہت کے کچھ نمونے دیے جارہے ہیں :
[1] الفرق بین الفِرق ص:۵۰ -۵۱۔
[2] الملل و النحل ۱/ ۱۴۹۔