کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 285
﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتَّی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْکُمْ﴾ (محمد:۳۱)
’’ اور ہم تم لوگوں کوآزمائیں گے تاکہ جو تم میں سے مجاہدین کو جان لیں۔‘‘
یہ اس طرح کہ اسے اس مراد پر محمول کیا جائے کہ: یہاں تک کہ ہم جان لیں کہ جہاد تم میں موجود ہے۔ اس لیے کہ جہاد کے وجود سے پہلے یہ نہیں جانا جا سکتا تھاکہ تم میں جہاد موجود ہے۔ اس کا علم اسکے حصول کے بعد ہی حاصل ہوگا۔ ایسے ہی بداء کے متعلق عقیدہ ہے اور یہ بہت ہی خوبصورت مناسبت ہے۔‘‘[1]
یہ مرتضیٰ کا ایک بہت ہی خطرناک اعتراف ہے۔ جس کی موافقت بعد میں شیخ الطائفہ طوسی نے بھی اس قول کے ساتھ کی ہے کہ: ’’یہ بہت ہی مناسب وجہ ہے۔‘‘یہ اس مسئلہ میں دو ٹوک فیصلہ ہے۔ اور رافضیوں کے ہاں معنی بداء کواسی پر محمول کرنا مناسب ہے، اس کی وجوہات یہ ہیں :
’’کسی قول کے کسی متعین گروہ کی طرف منسوب کرنے کے لیے مناسب ہوتا ہے کہ[ وہ قول اور اس کی تفسیرکو] اس گروہ کے علماء کے اقوال سے لیا جائے۔ مرتضیٰ اور طوسی یہ دونوں رافضیوں کے بڑے علماء میں سے ہیں، جس کی تائید ان کے علماء جرح و تعدیل نے بھی کی ہے۔‘‘[2]
۲۔ یہ نص رافضیوں کی کئی ایک کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور علماء رافضہ میں سے کسی ایک نے بھی مرتضی اور طوسی کے اللہ تعالیٰ پر اس بہتان کے گھڑنے کو غلط نہیں کہا۔ نہ ہی قدیم علماء نے اور نہ ہی معاصرین نے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مرتضی اور طوسی کے ذکر کردہ معنیٔ ’’بداء ‘‘ میں ان کے ساتھ ہیں۔
یہ بحث ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق رافضیوں کے عقیدہ بداء کا سبب بھی ذکر کیا جائے۔رافضیوں کے اس فاسد عقیدہ کا سبب [بھی ہمارے لیے شیعہ عالم ] نو بختی؛ جو کہ تیسری صدی ہجری کا ایک بڑا [رافضی]عالم ہے ؛ واضح کررہا ہے۔ وہ سلیمان بن جریر سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’بے شک علماء شیعہ نے اپنے شیعہ کے لیے دو عقائدایجاد کیے ہیں جن کی موجودگی میں ان کے لیے ان
[1] عقائد الإمامیۃ ص: ۸۰-۸۱۔