کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 284
مذکورہ معنی میں بداء اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہے کیونکہ یہ جہالت اور نقص میں سے ہے۔ اور امامیہ اس کا نہیں کہتے ہیں کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام سے ایسی روایات منقول ہیں جن سے سابقہ معنی میں بداء کے عقیدہ کے متعلق یقین ہوتاہے؛ جیساکہ حضرت صادق سے نقل کیا گیاہے‘ آپ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کے بارے میں ایسا ’’بداء ‘‘ نہیں ہوا جیسے میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ہوا ہے۔‘‘ اس لیے بعض اسلامی فرقوں کے مصنفین نے یہ بداء کا عقیدہ امامیہ طائفہ کی طرف ؛ ان کے مذہب اور آل ِ بیت کے طریقہ میں طعن کرتے ہوئے منسوب کیا ہے۔ اور اسے شیعہ کی جملہ برائیوں میں سے ایک قرار دیاہے۔‘‘[1] یہ ان کے ایک معاصر عالم کا اعتراف ہے کہ یہ وہ روایات ہیں جن سے لفظ بداء کا لغوی معنی سمجھا جاتا ہے،جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف جہالت کی نسبت لازم آتی ہے۔ رضا المظفر یہ وضاحت [اور اعتراف ] کر نے والا پہلا انسان نہیں ہے۔ بلکہ مرتضیٰ اس پر سبقت لے گیا ہے جس نے تقیہ اور نفاق سے پردہ چاک کیا ہے۔ [اس نے ] رافضیوں کے ہاں عقیدۂ بداء کے حقیقی معنی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس نے پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ : ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے بارے میں بداء کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا اور یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مستقبل کے بعض کاموں کا ان کے ظہور سے پہلے علم نہ ہو۔ طریحی نے مجمع البحرین میں (ان کے شیخ الطائفہ) طوسی سے کتاب ’’العدۃ‘‘ میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ شیعہ کے ہاں بداء۔‘‘ اس باب میں بداء کے حقیقی معنی کے متعلق گفتگو کی ہے ؛ اور اس میں علماء کے معتبر اقوال نقل کئے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں :’’ سیدنا مرتضی -قدس روحہ - نے بداء کا ایک دوسرا سبب بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے فرمایاہے کہ: ’’ اسے[یعنی عقیدہ بداء کو] اس کے حقیقی معانی پر محمول کرنا عین ممکن ہے۔ یعنی بداء کی وضاحت کرتے ہوئے کہا جائے کہ : ’’بداء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے لیے ظاہر ہوا۔ اور اس سے مراد یہ لی جائے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا امر ظاہر ہوا جو اس سے پہلے اس کے لیے ظاہر نہیں تھا۔ اور معاملات نہی میں ایسی چیز ظاہر ہوئی جو اس کے لیے پہلے ظاہر نہیں تھی۔ اس لیے کہ امر اور نہی کے ظہور سے پہلے یہ امور ظاہر اور قابل ِ ادراک نہیں تھے۔ بے شک وہ جانتاتھا کہ وہ مستقبل میں حکم دے گا اور منع کرے گا، مگر اس کا آمر اور ناہی ہونا، یہ اس وقت درست نہیں ہوسکتاکہ وہ کسی چیز کو جان لے، مگر اس وقت جب مستقبل میں حکم دیا جائے یا منع کیا جائے۔اور یہی دو وجوہات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بیان ہوئی ہیں :
[1] الغیبۃ للطوسي ص: ۲۶۳۔