کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 283
اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں اس امر کے لیے وقت مقرر کیا ہو،جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کوئی نیامعاملہ پیش آیا، اورجو کچھ بھی نیا پیش آیا تو مصلحت بھی بدل گئی۔ اوردوسرے وقت تک اس کی تاخیر کا تقاضا ہوا ؛ اوربعد میں بھی ایسے ہی ہوا۔ اوراصل توپہلا وقت ہوگا۔ہر وہ وقت جس میں غیر مشروط تاخیر جائز ہو، اس میں ایسی تجدید ہوسکتی ہے جب کہ اس میں مصلحت کا تقاضا تاخیر کرنا ہو ؛ یہاں تک وہ وقت آجائے جس میں کوئی چیز تبدیل نہیں ہوگی ؛ اس وقت پھر [وہ معاملہ] حتمی ہوجائے گا۔‘‘[1] ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ [یہ لوگ ] حادثہ پیش آنے سے پہلے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سابق علم پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور اس کی تائید طوسی کا عذر بھی کرتا ہے؛ جس سے خروج مہدی کی دو بار تاخیر والی ان روایات کا جب کوئی حل نہ نکلا تو اس نے ’’تجدید ‘‘ مصلحت کا ڈھونگ رچایا، یعنی (ان کے گمان کے مطابق) جب بھی نئی مصلحت پیش آتی ہے، تو اللہ تعالیٰ مہدی کے خروج کو لیٹ کردیتے ہیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو حادثہ یا واقعہ کے پیش آنے کے بعد ہی مصلحت کا علم ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھنے والے ہوتے کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے؛ اور ان کے مہدی کے راز کو افشاء کرنے کا علم پہلے سے تھا؛ (جیسا کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں )؛ اور اللہ تعالیٰ کومخلوق کے پید ا کرنے سے پہلے اس کی مصلحتوں کا علم تھا؛ تو پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایسے بہتان کیوں گھڑتے ؟ مجموعی طور پر ان روایات سے ہمارے لیے ظاہر ہوتا ہے کہ رافضہ اللہ تعالیٰ پر لفظ ’’بداء ‘‘کا اطلاق ان سابقہ دونوں لغوی معنوں کی روشنی میں ہی جائز قرار دیتے ہیں۔ رہا ان کے بعض علماء کا دعویٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ پر لفظ ِ ’’ بداء‘‘ کے اطلاق سے اس کا لغوی معنی مراد نہیں لیتے ؛ تو یہ سرے سے ایک باطل دعویٰ ہے۔ جس کے باطل ہونے پر وہ روایات دلالت کرتی ہیں جن میں انہوں نے اسی لغوی معنی کوصراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ان کے ایک معاصر عالم محمد رضا المظفر نے کیا ہے،وہ: ’’عقیدتنا فی البداء ‘‘ (بداء میں ہمارا عقیدہ )کے عنوان کے تحت لکھتا ہے : ’’بداء انسانوں میں کسی چیز کے بارے میں ایسی رائے کا ظاہر ہونا ہے جو رائے اس کے لیے پہلے نہیں تھی۔ اس طرح کہ وہ جس کام کے کرنے کا عزم رکھتا تھا، اس کو بدل دے۔ اس لیے کہ اسے اب ایک ایسا واقعہ پیش آگیا جس سے اس کی رائے اور علم بدل گئے ہیں۔ اور اس کے لیے اب اس کا ترک کردینا بہتر ظاہر ہوتا ہے، حالانکہ پہلے وہ اسی کام کو کرنا چاہتا تھا۔ یہ مصلحتوں سے لاعلمی کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس میں گزشتہ پر ندامت ہوتی ہے۔
[1] الأصول الکافي ۱/۳۲۶۔ [2] الغیبۃ للنعماني ص: ۱۹۷؛ الغیبۃ للطوسي ص: ۲۶۳؛ بحار الأنوار ۵۲/ ۱۰۵۔ [3] الغیبۃ للنعماني ص: ۱۹۷۔ [4] الغیبۃ للطوسي ص: ۲۶۳؛ بحار الأنوار ۵۲/ ۱۰۵۔