کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 282
نیز کلینی کی علی بن جعفر سے نقل کردہ دوسری روایت میں ہے : ’’ جب ابو الحسن علیہ السلام کے بیٹے محمد کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس موجود تھا، تو انہوں نے اپنے بیٹے حسن سے کہا : ’’ اے میرے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے لیے[ شکر و ‘ اسے بداء ]کا ظہور ہوا ہے، اس نے تیرے معاملہ میں ایک نئی چیز ظاہر کی ہے۔‘‘[1] یہ دونوں روایتیں صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف تجدید ِ رائے منسوب کرنے پر دلالت کرتی ہیں ؛ (اللہ تعالیٰ اس سے بلند و بالا ہے)۔ نیز یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قائم منتظر کے خروج کا وقت متعین کیا تھا؛ جب حضرت ِ حسین رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے تو اللہ تعالیٰ کو بہت سخت غصہ آیا،اور اس نے اس معاملہ کو مؤخر کردیا۔‘‘ پھر دوسری بار انہوں اس کے خروج کا وقت مقرر کیا، مگر شیعہ نے اس کے متعلق بیان کرنا شروع کردیا، تواللہ نے اسے پھر سے مؤخر کردیا۔‘‘ نعمانی اور طوسی نے ابو حمزہ ثمالی سے روایت کیا ہے، وہ کہتا ہے : میں نے ابو جعفر باقر (ع) سے سنا وہ کہہ رہے تھے: ’’ اے ثابت ! اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے سن ستر (۷۰) میں وقت مقرر کیا تھا ؛ مگر جب حسین (ع) رضی اللہ عنہ قتل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کا غصہ بہت سخت ہوگیا، اور اسے ایک سو چالیس تک (۱۴۰) موخر کردیا، جب ہم نے تم سے یہ بیان کیا تو تم نے اسے شائع کردیا،اور اس راز سے پردہ چاک کردیا ؛ پھر اللہ نے اس کے بعد اس معاملہ کے سلسلہ میں ہمارے ساتھ کوئی وقت مقرر نہیں کیا ؛ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے باقی رکھتا ہے ؛ اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔ ابوحمزہ کہتے ہیں : میں نے یہ بات ابو عبد اللہ الصادق سے بیان کی تو انہوں نے کہا : بالکل ایسے ہی تھا۔‘‘[2] اور نعمانی اسحق بن عمار سے روایت کرتا ہے، وہ کہتا ہے مجھ سے ابو عبد اللہ (ع)نے کہا: ’’ اے ابو عبد اللہ! اس معاملہ میں دوبار تاخیر کی گئی ہے۔‘‘[3] طوسی عثمان النواء سے روایت کرتا ہے، کہا : میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سنا، وہ کہہ رہے تھے : ’’یہ امر میرے متعلق تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے لیٹ کر دیا ؛ اب میرے بعد میری اولاد میں سے جس میں چاہے گا یہ امر (واقع ) ہوگا۔‘‘ [4] طوسی نے ان روایات پر تعلیق لگاتے ہوئے کہا ہے : ’’ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ روایات صحیح ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے؛ بے شک یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ
[1] کمال الدین و تمام المنۃ ؛ص: ۶۴۔ [2] تصحیح الأعتقاد بصواب الانتقاد ص: ۵۱۔ [3] الأصول الکافي ۱/۳۲۷۔