کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 281
صدوق اس روایت کی تفسیر میں کہتا ہے : ’’رہا آپ کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کے بارے میں ایسا ’’بداء ‘‘ نہیں ہوا جیسے میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ہوا ہے ‘‘؛ اس سے مراد ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی بات ایسے ظاہر نہیں ہوئی جیسے میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ظاہر ہوئی ہے، اسے میری زندگی میں ہی ختم کردیا۔‘‘[1] اس عبارت سے جوچیز ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسماعیل کی موت کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر مخفی تھا، جو کہ بعد میں ظاہر ہوا۔ اور اس کے پیش آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں تھا۔ تعالی اللّٰه عن ذلک۔ ایک دوسری روایت میں ہے ؛ جسے وہ جعفر سے اپنے بیٹے اسماعیل کی موت کے بارے میں نقل کرتے ہیں ؛ بے شک انہوں نے فرمایا: ’’ اسماعیل پر دو بار قتل ہونا لکھا گیا تھا، میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ہے کہ اسے ختم کر دے، سو اسے ختم کردیا۔‘‘[2] اس روایت سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ تمام جو کچھ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے، وہ سابقہ علم کی بناپر نہیں تھا، اس لیے وہ پورانہیں ہوسکا؛ بلکہ ان میں سے بعض تقدیریں آگے اور پیچھے بھی ہوگئیں۔ جیساکہ انہوں نے اس روایت میں ذکر کیا ہے کہ اسماعیل کی دوبار موت کو اس کے والد کی دعا کی وجہ سے متاخر کیا۔ وہ روایات جن میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بداء منسوب کرتے ہیں، کلینی کی روایت ہے، جسے وہ محمد بن علی سے اور وہ اسحق بن محمد سے اور وہ ابو ہاشم جعفری سے روایت کرتا ہے ؛ وہ کہتا ہے : ’’ میں ابو الحسن علیہ السلام کے پاس تھا ؛ جب ان کا بیٹا جعفر مر گیا تومیں اپنے دل میں [امامت کے متعلق ]سوچنے لگاکہ …… ابو محمد کے بعد ابو جعفرسے امیدیں لگائی گئی تھیں [جب کہ ابو جعفر پہلے مر گیا اور ابو محمد بعد تک کے لیے زندہ ہے۔] تو میرے بولنے سے پہلے ابو الحسن میری طرف متوجہ ہوئے، اور کہا : ’’ ہاں ابو ہاشم ! ابو جعفر کے بعد ابو محمد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو بداء ہوگیا تھا۔ جس کی معرفت اس کو پہلے سے نہیں تھی۔ جیسا کہ اسماعیل کے گزر جانے کے بعد موسیٰ کے بارے میں بداء ہوا؛ اس کی حالت پہلے منکشف نہیں ہوئی تھی۔ اور یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تیرے دل میں کھٹک رہا ہے اگرچہ اہل باطل اسے نا پسند ہی کیوں نہ کریں۔ ابو محمد میرا بیٹا ہی میرے بعد خلیفہ ہوگا؛ اس کے پاس وہ علم ہے جس کی اسے ضرورت ہوسکتی ہے۔ اور اس کے ساتھ امامت کی اہلیت ہے۔‘‘[3]
[1] تفسیر العیاشی ۱/ ۴۴۔ [2] روضۃالکافي ۸/ ۱۰۳۔ [3] کمال الدین و تمام المنۃ ؛ص: ۶۹؛ فرق الشیعۃ ، ص: ۶۴۔الأنوار النعمانیۃ ۱/ ۳۵۹۔ [4] فرق الشیعۃ :نو بختی ص: ۶۹۔