کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 280
کردیں، تو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا وقت شروع اور آخر میں چالیس راتیں قرار پایا۔‘‘[1]
یہ روایت اللہ تعالیٰ کے لیے حدوث ِ علم کو منسوب کرنے میں بہت ہی صریح اور واضح ہے۔ان کا یہ کہنا : ’’ علم اور تقدیر میں تیس راتیں تھیں۔‘‘ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کا وقت صرف تیس دن ہی جانتے تھے۔ اور اسی چیز کا علم اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں تھا۔ رہا باقی دس راتیں ؛ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں نہ تھیں ؛ بلکہ یہ علم اور تقدیر سے خارج تھیں ؛ یہ بعد میں اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بیہودگیوں سے بہت ہی بلند ہے۔[اس کا علم دائمی اور ازلی ہے ]
اوران صریح روایات میں سے جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف رائے کا تبدیل ہونا،اور تجدید منسوب کی گئی ہے، [ایک روایت جسے ] کلینی نے اپنی سند سے ابو جعفر اور ابو عبد اللہ علیہما السلام سے روایت کیا ہے، بے شک ان دونوں نے کہا ہے :
’’جب لوگوں نے پیغمبر علیہ السلام کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ تمام اہل زمین کو علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہلاک کردے، لیکن اس نے ایسا نہ کیا، اس لیے کہ اس کا فرمان ہے:
﴿فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ﴾ (الذاریات:۵۴)
’’پس آپ ان سے اعراض کروآپ کو (ہماری طرف سے) ملامت نہ ہو گی۔‘‘
پھر اس کے لیے ظاہر ہوا تو اس نے مؤمنین پر رحم کیا۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
﴿وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرَی تَنفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الذاریات:۵۵)
’’ اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔‘‘[2]
ان روایات میں اللہ تعالیٰ رب العالمین کی طرف بداء ؛ یعنی رائے کا بدلنا اور اس کی تجدید ؛ منسوب کرنے کی وجہ سے جو جھوٹ اور افتراء باندھاگیا ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اور ان صریح اور واضح روایات میں سے جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف جہالت کو منسوب کیا گیا ہے :وہ روایت ہے جسے جعفر الصادق رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کے بارے میں ایسا ’’بداء ‘‘ نہیں ہوا جیسے میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ہوا ہے۔‘‘[3]
اس روایت کی بھی ایک بڑی عجیب سی مناسبت (وجہ ) ہے۔ یہ ایک قصہ ہے جسے انہوں نے امام جعفر الصادق کی طرف منسوب کیا ہے ؛ کہ انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل کے امام ہونے کے لیے حکم جاری کیا تھا۔ پھر اسماعیل اپنے والد کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا۔ تو اس فضیحت سے بچنے کے لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف بداء منسوب کرلیا۔‘‘[4]
[1] أوائل المقالات ص: ۳۰۸۔
[2] تصحیح الاعتقاد ص: ۵۰۔
[3] حق الیقین في معرفۃ أصول الدین ۱/۷۸۔ تفسیر القمی ۱/ ۳۸۔