کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 279
’’ بداء کا اقرار کرنا اللہ تعالیٰ کی جناب میں انقطاع کو واجب کرتا ہے۔پس اس کی طرف سے اِس کی دعاکا جواب طلب کرنا، اور اس کے امور میں کافی ہوجانا،اور اپنی اطاعت کی توفیق دینا اور اپنی نافرمانی سے بچا کر رکھنا [یہ سب بداء کا نتیجہ ہے ]۔‘‘ [1]
بداء کے عقیدہ پر تمام رافضیوں کا اجماع ہے۔ اور یہ اجماع ان کے بڑے شیخ المفید نے اپنی کتاب ’’أوائل المقالات‘‘ میں نقل کیا ہے۔ اور اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس عقیدہ میں رافضی تمام اسلامی فرقوں کے مخالف ہیں۔ میں نے یہ نص پچھلے باب میں ذکر کی ہے اورایسے ہی اپنی کتاب ’’ تصحیح الاعتقاد ‘‘ میں کہتا ہے :
’’امامیہ کا بداء کے بارے میں عقیدہ سمع پر مبنی ہے، اس کی کوئی عقلی دلیل نہیں بس کے بارے میں ائمہ علیہم السلام سے اخبار وارد ہوئی ہیں۔‘‘[2]
رافضی علماء میں سے کسی ایک نے بھی اس عقیدہ کا انکار نہیں کیا۔ یہ ان روایات کی کثرت کی وجہ سے ہے جو ان کی کتابوں میں اس عقیدہ کو بیان کرتی ہیں۔ان میں سے بعض نے اس فاسدہ عقیدہ پر عام مسلمانوں کی طرف سے برا بھلا کہنے پر ’’بداء ‘‘کے معروف لغوی معانی میں تاویل کرنے کی کوشش کی تھی ؛ اور کہنے لگے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ پر لفظ ’’بداء ‘‘ کے اطلاق سے جہل لازم نہیں آتا۔ اور تکوین میں ’’بداء ‘‘ ایسے ہی ہے جیسے کہ تشریع میں نسخ۔‘‘[3]
اور اس کے علاوہ بھی بودے اور نا معقول عذر پیش کیے ہیں، جن سے اس فاسد عقیدہ کے بارے میں اپنے مذہب سے رسوائی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں اس بحث میں یہ بات [ان شاء اللہ] ثابت کروں گا کہ : ’’ بیشک بداء کا وہ معنی جس کااپنی کتابوں میں وہ اللہ تعالیٰ پر اطلاق کرتے ہیں۔ وہ اس لغوی معنی سے باہر نہیں ہے جو کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ جن معانی سے اللہ تعالیٰ کی طرف جہالت منسوب کرنا لازم آتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت ہی بلند ہے۔
اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ جملہ روایات میں ذکر کروں گا جن میں انہوں نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے رائے کا تبدیل ہونا جائز ہے؛ اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے لیے علم کا حدوث اور تجدید بھی۔ معاذ اللّٰہ! تعالَی اللّٰہ عن ذلک۔
عیاشی نے اپنی تفسیر میں محمد بن مسلم سے روایت کیا ہے ؛ وہ ابو جعفر علیہ السلام سے روایت کرتا ہے، [اس آیت کی تفسیر میں ]:
﴿وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً﴾ (البقرۃ:۵۱)
’’اورجب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا۔‘‘
فرمایا: ’’ علم اور تقدیر میں تیس راتیں تھیں، پھر اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر ہوا تو اس میں دس راتیں زیادہ
[1] محمد عبد الستار التونسوي ،بطلان عقائد الشیعۃ ص ۲۳۔
[2] دیکھو: أصولِ کافی کا مذکورہ باب؛ روایت میں ابو جعفر یا ابو عبد اللہ کسی کا نام نہیں لیا گیا، صرف اتنا ہے کہ ان دو میں سے کسی ایک سے روایت کیا گیا ہے۔
[3] ’’أصول الکافی ۱/ ۱۴۶- ۱۴۷۔
[4] الخوئی : البیان في تفسیر القرآن ص: ۳۹۲۔