کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 278
ہی کر دیں۔‘‘ ’’بداء میں اپنے دونوں معنی کے لحاظ سے پہلے جہالت کا ہونا اور پھر علم کا حصول لازم آتا ہے۔اور یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہیں۔‘‘[1] جب کہ رافضی لفظ بداء کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے لیے جائز سمجھتے ہیں بلکہ انہوں نے اس میں اتنا مبالغہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ’’بداء ‘‘ کا اطلاق کرنا ان کے عقیدے کا جز بن گیا؛ جس کی رافضی دین میں ایک منزلت ہے۔ اور ان کی کتابوں بہت ساری روایات ایسی آئی ہیں جن میں اس عقیدہ کی تعظیم بیان کی گئی ہے۔ اور اس عقیدہ پر مضبوطی سے قائم رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اصول الکافی،کتاب التوحید میں باب ’’البداء ‘‘ کے تحت کئی روایات ذکر کی گئی ہیں، جن میں چند ایک کا انتخاب یہاں پر ذکر کرنے کے لیے کرتا ہوں۔ (ان چنیدہ روایات میں سے ): زرارہ بن اعین نے (ابو جعفر یا ابو عبداللہ ان دو میں سے کسی) ایک سے روایت کیا ہے : ’’ اللہ تعالیٰ کی بندگی جیسے عقیدہ ء’’بداء ‘‘ سے کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘[2] اور ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ کی جیسی عظمت عقیدۂ ’’بداء ‘‘ سے بیان کی گئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘ اور ابو عبد اللہ علیہ السلام سے ہی روایت ہے، کہتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا یہاں تک کہ ان سے تین باتوں کا وعدہ لے لیں : ’’ اپنی عبودیت کا اقرار ؛اورشرک سے اجتناب، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہے مقدم کر دے،اور جس کو چاہے مؤخر کردے۔‘‘ اور مالک الجہنی سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا، وہ کہہ رہے تھے : ’’اگر لوگ جان لیں کہ ’’بداء کے قول ‘‘ میں کتنا اجر ہے تووہ ذرا بھر بھی اس میں ناغہ نہ کریں۔‘‘ [3] اور ریان بن صلت سے روایت کیا گیا ہے، وہ کہتا ہے : میں نے رضا علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا : ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا، مگر شراب کی حرمت اور اللہ تعالیٰ کیلئے عقیدہ ’’بداء ‘‘ کے اقرار کیساتھ۔‘‘ [4] اور (شیعہ عالم) خوئی ’’ بداء ‘‘کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
[1] القاموس المحیط للفیروز آبادی [2] تفسیر ابن کثیر ۴/ ۵۷ [3] الصحاح ۱/ ۷۷؛ مادۃ ’’بدو۔‘‘ [4] القاموس المحیط ۴/ ۳۰۲ ، مادۃ ’’بدو۔‘‘