کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 277
دوسری بحث :… اللہ کی طرف بداء کی نسبت رافضی مذہب میں
بداء کا اطلاق لغت میں دو معنوں پر ہوتا ہے :
پہلا معنی:پوشیدگی کے بعد ظاہر ہونا۔ کہا جاتا ہے: بَدَا، بَدْواً وبُدُوًّا وبَدَا وبَدَائَ ۃً وبُدُوًا : اس کا معنی ہے : ظاہر ہوا۔ اور اَبْدَیْتُہٗ : میں نے اس کو ظاہر کیا۔ اور کہاجاتا ہے : بادي الرأي: یعنی ظاہری رائے۔[1]
اس معنی پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتاہے :
﴿ وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ﴾ (الزمر:۴۷ )
’’ ان پر اللہ کی طرف سے وہ امر ظاہر ہواجس کا ان کو خیال بھی نہ تھا۔‘‘
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ یعنی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوگیا جو ان کے لیے عذاب اور سزا کی صورت میں تھے، جو نہ تو ان کی سوچ و فکر میں تھے، اور نہ ہی وہم و گمان میں۔‘‘[2]
اور ایسے ہی یہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے:
﴿وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہٗ﴾ (البقرۃ:۲۸۴)
’’اگر تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہرکرو یا چھپاؤ تو اللہ تم سے اُس کا حساب لے گا۔‘‘
دوسرا معنی :(نئی رائے کا پیدا ہونا )
علامہ جوہری کہتے ہیں : ’’بدا لہ فی الأمر بدائً۔‘‘ یعنی اس میں ایک نئی رائے پیدا ہوئی۔ [3]
او ر صاحب القاموس المحیط کہتے ہیں : ’’بداء لہ فی الأمر بدْواً و بدائً و بداۃً ‘‘یعنی اس کے لیے ایک نئی رائے سامنے آئی۔ [4]
اس معنی پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتاہے :
﴿ثُمَّ بَدَا لَہُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا رَأَوُاْ الآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّہُ حَتّٰی حِیْنٍ﴾ (یوسف:۳۵)
’’پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگ نشانیاں دیکھ چکے تھے ان کی رائے یہی ٹھہری کہ کچھ عرصے کیلئے ان کو قید
[1] إصحاح ۲ ، فقرہ ۲۳-۲۴۔
[2] اصحاح ۱۲؛ فقرات۱۲-۱۳۔