کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 276
’’ اور بنی اسرائیل عبودیت سے تھک گئے اور چلائے ؛ اس عبادت کی وجہ سے ان کی چیخ اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے رونے کی آواز سنی تو اللہ تعالیٰ کو ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے ساتھ کیا ہوا اپنا وعدہ یاد آگیا۔‘‘[1]
اس نص سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ابراہیم و اسحق اور یعقوب کے ساتھ اپنا وعدہ بھول گیا تھااور اسے یہ وعدہ بنی اسرائیل کی آہ و بکا ء نے یاد دلایا۔[اللہ ان باتوں سے بری ہے ]
بے شک یہودیوں کا اس صفت کا اللہ تعالیٰ پر اطلاق کرنا اس یہودی عقیدہ کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہالت کو جائز سمجھتے ہیں۔ [بے شک اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے ]
اور جو بات اس کی تاکید کرتی ہے، (وہ) سفر خروج میں صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف جہالت کو منسوب کیا گیا ہے۔جب وہ یہ گمان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ان الفاظ میں خطاب کیا :
’’بے شک آج رات میں مصر کی سر زمین میں جاؤں گا ؛ اور سر زمین مصر کے ہر کنوار ے انسان اور چوپائے کو ماروں گا۔ اور مصریوں کے تمام معبودوں پر احکام جاری کروں گا (کہ) میں رب ہوں۔ اور تمہارے گھروں کے لیے،جن میں تم موجود ہو؛ علامت خون ہوگا، میں خون دیکھوں گا تو تم سے گزر جاؤں گا۔ تو تم پر ہلاکت کی مار نہیں آئے گی جب میں سر زمین مصر کو ماروں گا۔‘‘[2]
مذکورہ نص / عبارت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مصریوں اور بنی اسرائیلیوں کے گھروں میں فرق اور تمیز کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ تھا ؛ اس لیے بنی اسرائیل سے کہاگیا کہ وہ اپنے گھروں کے سامنے خون بطور نشانی کے رکھیں تاکہ وہ اس ہلاکت کا شکارنہ ہوں۔ جہالت کی اس انتہاء کا کسی ادنیٰ درجے کا علم رکھنے والے انسان سے صادر ہونا بھی ممکن نہیں، چہ جائے کہ ایسا کام اللہ رب العالمین سے صادر ہو؛ جو وہ سات آسمانوں اور اس سے اوپر کا؛اور تحت الثریٰ اور اس سے نیچے کا، اور زمین و آسمان کے مابین جو کچھ بھی ہے، اس سب کا علم رکھتا ہے۔
آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ نصوص صرف چند مثالیں ہیں جو یہود نے اپنی کتب میں اللہ رب العالمین کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے بیان کی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے صفات نقص بیان کرنے کا نتیجہ اس کی طرف جہالت کو منسوب کرنا ہے[معاذ اللہ]۔ اللہ تعالیٰ اس سے بلند و بالا ہے۔ان مذکورہ امور کو یہاں پر بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہودیوں کے فاسد عقائد اورامراض القلوب کو ظاہر کرنا ہے۔
ورنہ ہم ایسے عقائد سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں، اور اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ استغفر اللّٰہ وأتوب إلیہ!!
[1] إصحاح ۶؛ فقرات ۵-۸۔
[2] نسیان دو معنو ں میں آتا ہے ؛ ایک ذکر اور حفظ کا الٹ ہے ، (لسان العرب ۲۰/۱۹۴)؛ اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ﴿سَنُقْرِؤُکَ فَلَا تَنسٰی ﴾(الاعلی: ۶)’’ ہم آپ کو پڑھا دیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَاذْکُر رَّبَّکَ إِذَا نَسِیْتَ ﴾ (الکہف: ۲۴) ’’ اور جب بھول جائیں ؛[اور جس وقت یاد آئے] تو اپنے رب کو یاد کرلینا۔‘‘ یہ معنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ممتنع ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے متعلق فرماتے ہیں : ﴿وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیّاً﴾ (مریم:۶۴) ’’ اور آپ کا رب ہر گز بھولنے والا نہیں ہے۔‘‘ اور نسیان ترک کردینے ، چھوڑ دینے کے معنی میں بھی آتا ہے ، (لسان العرب ۲۰/۱۹۴)۔ یہ معنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿نَسُوْا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ﴾ (التوبہ: ۶۷)’’ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلایا ؛ اللہ تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا۔‘‘
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑا ، اللہ نے ان کوچھوڑ دیا کہ انہیں کوئی کرامت اور ثواب نہیں عطا کیا۔‘‘ فتح القدیر ۲/ ۳۸۰۔
[3] اصحاح ۵ ، فقرات ۲۰-۲۱۔