کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 274
پلٹ گیا، اور میری بات کو قائم نہیں رکھا۔‘‘[1]
اس نص کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں جانتے تھے کہ آخر میں شاول کا کیا ہوگا ؟، ورنہ اس کو بنی اسرائیل کا بادشاہ نہ بناتے۔ [ اللہ تعالیٰ ان کے جھوٹوں سے بہت ہی بلند ہے ]۔
اور سفریوئیل میں (یہودی گمان کے مطابق) اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل سے خطاب میں ہے :
’’ اپنے دلوں کو پھاڑ ڈالو، اپنے کپڑوں کو نہیں، اور اپنے معبود رب کی طرف رجوع کرو؛ اس لیے کہ وہ بہت ہی رحم کرنے والا مہربان ہے ؛ اس کا غصہ بہت ٹھنڈا ہے، اور رحمت بہت زیادہ ہے۔ وہ برائی پر نادم ہوتا ہے شاید کہ وہ رجوع کرے اورنادم ہو۔‘‘[2]
ان کا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ وصف بیان کرنا کہ وہ نادم ہوتا ہے ’’یندم ‘‘ مضارع کے صیغہ کے ساتھ یہاں پر بیان کیا گیا ہے جو ان کے اس اعتقاد کی دلیل ہے کہ یہ ندامت مستمر ہے، اور اللہ تعالیٰ پر ہر وقت اس کی تجدید ہوتی ہے۔ [اللہ تعالیٰ ان کی کذب بیانیوں سے بہت ہی بلند و بالا ہے ]۔
تلمود کی روایت میں یوں آیا ہے :
’’ اور اللہ تعالیٰ یہودیوں کو اس تنگی کی حالت میں چھوڑ دینے پر نادم ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ہر دن نادم ہوتا ہے، روتا ہے اور اپنا چہرہ پیٹتاہے، اس کی آنکھوں سے دو قطرے سمندر میں گرتے ہیں۔ ان کی آواز شروع سے لے کر آخر عالم تک سب سنتے ہیں اورپانی میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ اور کبھی کبھار اس کی وجہ سے زمین میں حرکت آجاتی ہے، اور کبھی زلزلے رونما ہوتے ہیں۔‘‘[3]
یہودیوں کی کتابوں میں ندامت کی صفت کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر کیا گیا ہے اور یہ بات مخفی نہیں کہ اس صفت میں اللہ تعالیٰ کی طرف جس جہالت کومنسوب کیا گیا ہے۔تقدس اللّٰه عن ذلک۔
اس لیے کہ کسی متعین فعل پر ندامت نئے علم کے ظاہر ہوئے بغیر نہیں ہوتی ؛ جس سے اس فعل میں مصلحت کی مخالفت ظاہر ہوتی ہو۔ رہی وہ نصوص جن میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے بعض افعال پر غم اور افسوس[4] کی صفات بیان کی
[1] اصحاح ۳۲ ؛ فقرہ ۱۲-۱۴۔
[2] اصحاح ۲۱، فقرہ ۱۵۔