کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 273
پہلی بحث :…یہود کے ہاں اللہ تعالیٰ کی طرف حزن و ندامت کی نسبت یہودی اپنی عادت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف صفات نقص جیسے ندامت و غم اور افسوس وغیرہ منسوب کرنے میں ذرا بھر بھی احتیاط سے کام نہیں لیتے۔ یہودی اسفار میں بہت ساری نصوص ایسی وارد ہوئی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ پر مذکورہ صفات کا اطلاق کیا گیا ہے۔ وہ نصوص جن میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ندامت منسوب کی ہے، ان میں سے : سفر خروج میں آیاہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُن بنی اسرائیل کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے نکلے تھے؛ تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ ان کی قوم کو ہلاک کرنے کے بارے میں وہ اپنی رائے واپس لے لیں ؛موسی علیہ السلام نے تعالیٰ سے کہا: ’’اپنے سخت غصہ کو واپس لے لے اور اپنی قوم کے ساتھ شر کے ارادہ پر ندامت اختیار کر۔ اور ابراہیم، اسحق اور اپنے بندے اسرائیل کو یاد کر۔جن کے لیے تو نے خود ہی قسم اٹھائی ہے۔ اورتو نے ان سے کہا ہے : میں تمہاری نسل کو بڑھاؤں گا، اور یہ تمام میں جن کے بارے میں بات کی ہے، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے بادشاہ بن جائیں گے۔ تو رب اپنے اس قول اوراپنی قوم کے ساتھ جس شر وبرائی کا اس نے کہا تھا؛ اس پر نادم ہوا۔‘‘[1] اخبار ایام اول [پہلے دنوں کی خبریں ] میں اس سے مشابہت رکھتا ہوا ایک قصہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے یروشلم کو تباہ کرنے کے لیے فرشتے بھیجے۔ اور جو کوئی اس میں ہلاک ہوگا؛ (جب یہ بات) رب نے دیکھی تو شر مندہ ہوا، اور ہلاک کرنے والے فرشتوں سے کہا : اب کافی ہوگیا، اپنے ہاتھ واپس لے لو۔‘‘[2] سفر صموئیل اول میں آیا ہے، اللہ تعالیٰ شاول کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنانے پر شرمندہ ہوا، اس لیے کہ اس نے حکم عدولی کی تھی، اوراللہ تعالیٰ نے صموئیل سے یہ کہتے ہوئے کلام کیا : ’’ میں اس بات پر شرمندہ ہوں کہ میں نے شاول کو بادشاہ بنایا، اس لیے کہ وہ الٹے پاؤں میرے پیچھے