کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 270
منافی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَعَذَابُ الْآخِرَۃِ أَشَدُّ وَأَبْقٰی﴾ (طہ:۱۲۷)
’’ اور آخرت کاعذاب بہت سخت اور بہت دیر رہنے والا ہے۔‘‘
۲۔ بے شک خلفاء ثلاثہ (ابو بکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ) نے کسی ایسے جرم کاارتکاب نہیں کیا جس کی وجہ سے انہیں عذاب دینا واجب ہو، سوائے خلافت غصب کرنے کے (رافضی گمان کے مطابق)؛ اس غصب کی انتہا یہ ہوسکتی ہے کہ ناشکری یا فسق کا کام ہو۔ اور ناشکری اور فسق میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس سے موت کے بعد اور بعثت سے پہلے رجعت واجب ہوتی ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس سے تمام ادیان کے ناشکروں اور فاسقوں کی رجعت بھی لازم آئے گی۔ یہ لازم ان کے ہاں بھی باطل ہے۔
۳۔ اگر انہیں دنیا میں عذاب دینے سے مقصود ملامت کرنا اور ایذا دینا ہے تو یہ چیز عالم قبر میں ہوتی ہے۔ پھر اس صورت میں ان کو زندہ کرنا بیکار ہے۔ اور بیکاری (عبث) قبیح ہے جس سے اللہ تعالیٰ کو منزہ ماننا واجب ہے۔ اور اگر اس سے مقصود لوگوں کے سامنے ان کے جرائم کا پردہ چاک کرنا ہے ؛ تو اس کے زیادہ حق دار وہ تھے جو خلافت میں ان لوگوں کے زیادہ حقدار ہونے کے معتقد، اور ان کے حامی ومدد گار تھے۔
۴۔ رجعت سے لازم آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور وصی اور ائمہ سارے لوگوں سے ہٹ کر ایک اور موت کا ذائقہ چکھیں۔ اس لیے کہ ان کے لیے دنیا کی زندگی پھر سے لازم ہے۔ اور یہ بات ظاہرہے کہ دنیا کی سختیوں میں سے سب سے بڑھ کر سختی موت کی ہوتی ہے۔
اور پھر اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے محبوبوں کوبلاوجہ تکلیف دینے کو جائز کیوں قرار دیا جارہا ہے۔
۵۔ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جب ان ظالموں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو انہیں قرآئن سے معلوم ہوجائے گا کہ انہیں عذاب دینے اور قصاص لینے کے لیے زندہ کیا جارہا ہے۔ اور یہ کہ بے شک وہ باطل پر تھے۔ اور ائمہ حق پر تھے ؛پھر اس وقت وہ ضرور توبہ کریں گے؛ جب دنیا میں توبہ قابل ِ قبول ہے، اگرچہ وہ رجعت کے بعد ہی کیوں نہ ہو! تو پھر ان کو عذاب دینا کیوں کر ممکن رہے گا؟
۶۔ اس سے امیر المومنین اور نواسۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت لازم آتی ہے، بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر ذلیل سے بڑھ کر ذلیل تھے؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں سے انتقام نہ لیا ؛ اور نہ ہی انہیں ان پر قدرت دی؛ اِلاَّ یہ کہ ایک ہزار اور کئی سو سال کے بعد (یہ کیسے ممکن ہے؟) [1]
واللہ تعالیٰ اعلم!!
[1] الإیقاظ من الہجعۃ في اثبات الرجعۃ ۶۹-۷۰۔
[2] الرجعۃ ص : ۱۴۔