کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 27
رافضہ پر اپنے تمام تر حکم لگانے میں ہر قسم کی خواہش ِ نفس کی پیروی سے دور رہا ہوں۔ اس سار ے عمل میں میرے سامنے یہ منہج الٰہی رہا ہے :
﴿وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی اَ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدہ: ۸)
’’ اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو (بلکہ) انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے۔ ‘‘
اگر میں ان مقررہ قواعد اور پابندیوں کو نبھانے کی توفیق سے مالا مال ہوا ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے جن کا نہ ہی شمار ممکن ہے، اور نہ ہی شکر ادا کیا جاسکتا ہے۔ اگر مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے اجتہاد کیا ہے ؛ جس میں سہو اور غلطی کا اندیشہ ہے اور میں حق بات کی طرف رجوع کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ ان شاء اللہ!!
آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے میرے اس عمل کو قبول فرمالے۔ اور اسے خالص اپنی رضا کے لیے بنا دے۔ اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنالے۔
﴿ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَاء ُ اِنَّہُ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾ (یو سف:۱۰۰)
’’ بے شک میرا رب جوچاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلی آلہ و صحبہ وبارک وسلم
****