کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 269
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ گئے تھے۔‘‘ اور معتزلہ، خوارج ؛ زیدیہ، مرجیہ، اور اصحاب حدیث کا ان تمام امور میں جو ہم نے گنے ہیں، امامیہ کے (عقیدہ)خلاف اجماع ہے۔ ‘‘ احسائی نے کتاب ’’ الرجعۃ ‘‘ میں لکھا ہے : ’’بے شک جمہور رجعت کا بہت سخت انکار کرتے ہیں اور اس وجہ سے شیعہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور اس عقیدہ کو بدعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ‘‘[1] جب کہ الحر العاملی کا خیال (اور عقیدہ) ہے کہ رجعت کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ کے علاوہ کسی نے بھی اس عقیدہ کا نہیں کہا۔اس کی بنیاد ان کے اس عقیدہ پر ہے : ’’بے شک حق اہلِ سنت و الجماعت کی مخالفت کرنا ہی حق ہے۔‘‘ پھر وہ کہتا ہے : ’’ بے شک رجعت ایک ایسا معاملہ ہے جس کی صحت کے بارے میں عام اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا۔ اس عقیدہ کا قول صرف شیعہ کا ہے اور جو بھی ایسا معاملہ ہو، وہ حق ہے، یا تو صغر یٰ ہے ؛ تو پھر ظاہر ہے۔ یااگرکبریٰ ہے، تو اس پر دلیلیں بہت زیادہ ہیں۔ ائمہ علیہم السلام سے روایت کیا گیا ہے، بے شک انہوں نے عام لوگوں [شیعہ عامہ /عام لوگوں سے مراد غیر ِ شیعہ کو لیتے ہیں ] کے متعلق کہا ہے : ’’ اللہ کی قسم ! وہ کسی بھی راہ پر نہیں ہیں جس پر تم ہو اور تم اس راہ پر نہیں ہو جس پر وہ ہیں۔ سو ان کی مخالفت کرو، بے شک وہ حنیفیت میں سے کسی چیز پر بھی نہیں ہیں۔‘‘[2] اس سے خود ان لوگوں کا اعتراف ثابت ہوگیا کہ پوری امت اسلامیہ کااجماع عقیدۂ رجعت کے باطل ہونے پر ہے لیکن ان لوگوں سے ہم کیا کہہ سکتے ہیں جن کے دین اور عقیدہ کی بنیادیں ہی امت اسلامیہ کی مخالفت پر رکھی گئی ہوں۔ اور اسے اپنے فاسد عقیدہ کے اصولوں میں سے ایک اصول بنادیا ہو۔ عقل سے: عقل بھی عقیدہ ٔرجعت کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مختصر تحفہ اثنا عشریہ میں اس فاسد عقیدہ کے باطل ہونے پر کئی ایک دلائل ذکر کیے ہیں، جن میں سے چند ایک کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں : ۱۔ رافضی گمان کے مطابق اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے برے اعمال پر دنیا میں لوٹا کر عذاب دیا گیا، اور پھر انہیں آخرت میں لوٹا یا گیا اور عذاب دیا گیا تو اس سے صریح ظلم کا ہونا لازم آئے گا۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ان پر آخرت کے عذاب میں تخفیف کی جائے۔ مگر یہ جرم کی بھیانکی، اور انتہائی سخت غلطی ہونے کی وجہ سے اس کے
[1] صحیح مسلم ‘ کتاب الفتن و اشراط الساعۃ ‘باب قرب الساعۃ ‘ ح :۱۳۹۔ [2] ’’ بداء ‘‘ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کام یا اس کے انجام کا علم نہیں ہوتا ‘وہ کام کر گزرنے کے بعد اسے علم ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ اور سماعت سے مراد یہ ہے کہ : وہ اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہی عقیدہ رکھتے تھے؛ اس کے لیے کسی دلیل سے سہارا نہیں لیتے تھے [3] أوائل المقالات ص: ۴۸-۴۹۔