کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 267
ہے، اس لیے کہ نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے، اور نہ ہی تابعین اور ان کے بعد کے کسی ایک ایسے عالم سے ؛ جن کی بات عام مسلمانوں کے ہاں معتمد مانی جاتی ہو، (یہ منقول ہو کہ انہوں نے) ﴿عَذَابِ الْأَدْنٰی ﴾کی تفسیررجعت کے عذاب سے کی ہو۔
بلکہ یہ ایسی تفسیر ہے جس میں تمام اسلامی فرقوں کو چھوڑ کر رافضی منفرد ہیں۔
ذیل میں ﴿عَذَابِ الْأَدْنٰی ﴾ کی تفسیر میں وارد ہونے والے سلف کے اقوال دیے جا رہے ہیں :
٭ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ﴿عذاب الأدنی ﴾سے مراد دنیاکے مصائب بلائیں، امراض اور اللہ تعالیٰ کی آزمائشیں ہیں تاکہ وہ توبہ کرلیں۔
٭ سیّدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ﴿وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَی﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
(اس سے مراد) ’’دنیا کے مصائب ہیں۔‘‘
٭ دوسرے کچھ لوگوں کا کہنا ہے : اس سے مراد حدود لی گئی ہیں۔ یہ معنی سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔
٭ اور کچھ دوسرے لوگوں نے کہا ہے اس سے مراد :’’ تلوار سے قتل کیا جانا ہے۔ ‘‘
٭ سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد ہے کہ باندھے ہوئے (قید کی حالت میں ) تلوار سے قتل کیا جانا ہے۔‘‘[1]
یہ سلف کے اقوال ہیں، ان میں ایک قول بھی ایسا وارد نہیں ہوا (جو بتائے) کہ اس سے مراد رجعت کا عذاب ہے ؛ جیسا کہ رافضی گمان کرتے ہیں۔
چوتھی آیت : رہی چوتھی آیت یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :
﴿قَالُوْا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ ﴾ (غافر: ۱۱)
’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہم کو دو دفعہ بے جان کیا۔‘‘
اس سے پہلے گزر چکا ہے، میں نے وضاحت کی ہے کہ ان کے مذہب کی اس آیت میں کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ قیامت سے پہلے رجعت کے ناممکن ہونے کی وجہ سے یہ اہل ِ سنت و الجماعت کی دلیل ہے۔ اس بحث سے ظاہر ہوا کہ ان آیات سے رافضیوں کا اپنے عقیدہ ٔرجعت پر استدلال کرناسرے سے باطل ہے۔ وللہ الحمد والمنۃ
سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
سنت بھی اس عقیدہ (رجعت) کے فاسد ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ یہ بات احادیث میں آئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] تفسیر الطبري ۲۰/ ۷۹۔ فتح القدیر للشوکاني ۴/ ۱۹۰۔