کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 265
’’ جو لوگ اپنے مونہوں کے بل دوزخ کی طرف جمع کیے جائیں گے اُن کا ٹھکانہ بھی برا ہے اور وہ رستے سے بھی بہ کے ہوئے ہیں۔‘‘ اور وہ آیت جس سے وہ رجعت کے عقیدہ پر استدلال کرتے ہیں وہ اسی عنوان کے تحت داخل ہیں ؛ جیسا کہ مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ علامہ بغوی رحمہ اللہ،اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ﴿وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِن کُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً مِّمَّن یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَہُمْ یُوزَعُونَ﴾(النمل: ۸۳) ’’اور جس روز ہم ہر اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو اُن کی جماعت بندی کی جائے گی۔‘‘ ﴿وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً ﴾ یعنی ہر صدی میں ایک جماعت؛ ﴿ مِمَّن یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا﴾؛یہاں پر من تبعیض کے لیے نہیں ہے، اس لیے کہ تمام جھٹلانے والے جمع کیے جائیں گے۔ ﴿فَہُمْ یُوزَعُوْنَ﴾ یعنی ان کا پہلا اس وقت تک کے لیے روکا جائے گا جب تک کہ ان آخری آدمی آکر ان کے ساتھ جمع ہوجائے۔ پھر ان سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔[1] اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس کے قریب ترین معنی ذکر کیاہے۔ [2] اس سے معلوم ہوا کہ رافضہ کے لیے اس میں کوئی حجت نہیں ہے۔ اور اس آیت میں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿وَّحَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا﴾ ’’ اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کر لیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ ان دونوں کے درمیان آپس میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ ان دونوں آیات میں سے ہر ایک آیت حشر کی انواع میں سے ایک نوع پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ اس کا بیان اس سے پہلے گزر چکا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم رہی دوسری آیت، یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ اِلَی مَعَادٍ ﴾ (القصص:۸۵) ’’ جس (رب) نے آپ پرقرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ آپ کو پلٹنے کی جگہ لوٹا دے گا۔‘‘ اس آیت میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے بعد کے سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال نقل کیے ہیں ؛ اور معاد کے معنی مقصود میں ان کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں کثرت ِ اختلاف کے باوجود ایک قول بھی ایسا نہیں ہے جو رافضی مذہب کی تائید کرتا ہو۔ جو اس