کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 262
یہ آیت بھی سابقہ دونوں آیات کی طرح ہے۔ پہلی زندگی اس دنیا کی پہلی زندگی ہے اور دوسری زندگی قیامت کے دن کی ہے۔ رہی دو موتیں، تو پہلی موت سے مراد انسان کی تخلیق سے پہلے عدم کی حالت ہے۔جب کہ دوسری موت وہ موت ہے جو دنیا میں اپنی زندگی پوری کرنے کے بعد ہوگی۔اگر اس میں رجعت بھی ہوتی تولازم آتا تھا کہ تین زندگیا ں اور تین موتیں ہوں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ آیت رافضی کی دلیل نہیں ہے، بلکہ ان پر حجت ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت خوب فرمایاہے : ’’ بے شک رافضہ جب بھی کسی دلیل سے استدلال کرتے ہیں، وہ دلیل ان کے خلاف ہی ہوتی ہے، ان کی تائید میں نہیں ہوتی۔ ‘‘[1] اورجن آیات سے رافضی اپنے اس باطل عقیدہ پر استدلال کرتے ہیں، ان میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (العنکبوت: ۵۷) ’’ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے، پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ ﴾ (السجدۃ:۱۱) ’’ کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری رُوحیں قبض کرلیتا ہے، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ یہ دونوں آیتیں دلالت کرتی ہیں کہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اگر دنیا کی طرف لوٹ کر آنا ہوتا تو اس کا ذکر آیت میں ضرور آتا۔ یہ بعض وہ آیات ہیں جو اس عقیدہ کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ وگرنہ الحمد للہ قرآن کریم میں اور بھی بہت ساری آیات ہیں جواس عقیدہ بطلان پر دلالت کرتی ہیں۔ یہمقام ان تمام دلائل کو ذکر کرنے کا مقام نہیں۔ بس فقط چند آیات اس لیے یہاں ذکر کی ہیں تاکہ شک و شبہ ختم ہوجائے؛ اور ان لوگوں کے اس عقیدہ کا فساد ظاہر ہوجائے۔ رہی وہ آیات جن سے رافضی اپنے باطل عقیدۂ رجعت کے لیے استدلال کرتے ہیں، حقیقت میں ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں۔[ ذیل میں اس کا تفصیلی بیان ہے: ] پہلی آیت اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً مِّمَّن یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَہُمْ یُوزَعُوْنَ﴾ (النمل: ۸۳)
[1] الجامع لأحکام القرآن ۱/ ۲۴۹۔